ممتاز دانشور ‘ شاعر اور کالم نگار
محمد اظہار الحق
سے ایک منتخب گفتگو
مدیر: آپ کے ادبی نظریاتی سبھاؤ سے لگتا ہے کہ آپ کی طینت مشرقی ہے ۔۔۔یہ ایسا برا بھی نہیں اگر عملاً آپ مغربی طرز عمل سے آراستہ ہوں ۔۔۔اس دوئی میں کہیں سانسوں کی گھٹن محسوس نہیں ہوتی آپ کو ۔۔یا اندر کھاتے کبھی آزردہ بھی ہوئے ہیں ؟ (ایک بڑی سول سروس نوکری کی آپ نے ) ۔ ۔
اظہارالحق:شکریہ ضیاء صاحب! آپ کا سوال بہت شاطرانہ ہے
میں بنیادی طور پر مشرقی اور مغربی ثنویت پر یقین نہیں رکھتا لیکن چلیئے ‘ سکہ رائج الوقت گردانتے ہوئے انہی اصطلاحات میں بات کر لیتے ہیں ۔ دوئی تو یہ تھی ہی نہیں اس لیے کہ کوئی ایسی شے جو مشرقی تھی اور اچھی تھی میں نے ترک نہیں کی اور کوئی ئے جو مغربی سمجھی جاتی ہے اور بری ہے ‘ میں نے اپنائی نہیں ۔ کم از کم کوشش ضرور کی ‘ اِسے نہ چھوڑنے کی اور اسے نہ اپنانے کی ۔ اصل میں مشرقیت تمام کی تمام مستحسن نہیں ‘ نہ ہی جسے عرف عام میں مغربیت کہا جاتا ہے ‘ ساری کی ساری قبیح ہے ۔ انسان ایک وحدت ہے ۔ اکائی ہے ‘مشرقی اور مغربی کی تقسیم انسانیت کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے نہ مناسبت ۔ یہ جو بچپن میں پڑھایا جاتا ہے کہ
بنی آدم اعضائی یک دیگر اند
کہ در آفرینش ز یک جوہر اند
یعنی آدم کی اولاد ایک دوسرے کے اعضا ہیں۔ کیونکہ پیدائش میں وہ سب ایک ہی اصل سے ہیں۔
تو سوچنے کی بات ہے کہ یہ تو نہیں کہا گیا کہ صرف مسلمان یا صرف مشرقی لوگ ایک دوسرے کے اعضا ہیں۔ انسانیت تو تمام کی تمام ایک دوسرے سے مربوط ہے ۔
مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجیے کہ ہم نے انسان کو مختلف خانوں میں بانٹ دیا ۔ مذہب کی بنیاد پر ‘ سمتوں کی بنیاد پر ‘ رنگ نسل اور براعظموں کی بنیاد پر۔ حالانکہ پروردگار نے بھی اپنے لیے ’’رب الناس ‘‘ کے الفاظ استعمال کیے ۔ رہی سول سروس کی ملازمت تو اس کا قصہ یہ ہے کہ
ہزار دام سے نکلا ہوں ایک جنبش میں
جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے
سول سروس دماغ کو چڑھی نہ سر کو اور نہ دل کو ۔
یہاں ایک واقعہ یاد آگیا ‘ ایک دوست تھے بچپن کے ‘ عبدالماجد ‘ مرحوم ہو گئے ‘ خدا ن کے درجات بلند کرے ‘ ہم گاؤں میں اکٹھے کھیلے ‘ یہ بڑے ہوئے تو درزی بن گئے ‘ پھر یہ کام بھی چھوڑ دیا اور تبلیغی جماعت کے ہو کر رہ گئے ‘ شادی کے جھنجھٹ میں نہیں پڑے ۔ کبھی کبھی آتے ‘ میرے ہاں چند دن گذارتے اور چلے جاتے ۔ میرے بچے انہیں ماجد تایا جی کہتے ۔ ایک دن میرے دفتر آئے یہ پشاوری چپل اتار کر کرسی پر آتی پالتی مار کر بیٹھتے ۔ اور خوب بلندآواز سے بات کرتے ۔ اتنے میں نائب قاصد گھبرایا ہوا اندر آیا اور کہنے لگا کہ بڑے صاحب ( محکمہ کے سربراہ ) آ رہے ہیں ۔ میں نے کہا ٹھیک ہے ۔ وہ عبدالماجد صاحب کے پیچھے کھڑے ہو کر آنکھ کے اشارے سے مجھے سمجھانے لگا کہ یہ جس حلیے اور جس انداز میں بیٹھے ہیں ‘ مناسب یہی ہے کہ پی اے کے کمرے میں بیٹھ جائیں ۔ میں نے زور سے قہقہہ لگایا اور اسے بتایا کہ یہ یہیں بیٹھیں گے اور اسی انداز میں بیٹھیں گے ۔ سربراہ ہمارے ہیں ‘ ان کے نہیں ‘ بڑے صاحب آئے تو میں نے تعارف کرایا ۔ کوئی آسمان نہ ٹوٹا ۔ کچھ عرصہ بعد میں محکمے کا سربراہ بنا ‘ تب بھی وہ آتے ‘ اور اسی انداز میں بیٹھتے اور بلند آواز سے بات کرتے۔ آپ نے سانسوں کی گھٹن کی بات کی تھی ۔ میں نے دروازہ کھلا رکھا ‘ ہوا آتی رہی ۔ حبس ہونے ہی نہیں دیا !
ایک اور واقعہ یاد آ رہا ہے ۔
میرے ایک رفیق کار (Batch Mate) لاہور سے اسلام آباد آئے ہوئے تھے ۔ میں نے انہیں دوپہر کے کھانے کی دعوت دی ۔ وہ آئے تو میں دفتر میں بیٹھا تھا ۔ ان سے دس منٹ کی تاخیر چاہی کہ کچھ سائل ملاقات کے لیے بیٹھے تھے ۔ مجھے یاد ہے ایک صاحب مردان سے آئے تھے ۔ میں نے انہیں قہوہ پلایا ‘ بات سنی اور متعلقہ افسر کو ہدایت کی کہ ان کا کام جائز ہے ‘ انہیں آرڈر دستی دے دیں تاکہ یہ شام کو گھر پہنچیں تو مطمئن ہوں ۔ ایک اور صاحب سرگودھا سے آئے ہوئے تھے ۔ میں نے ان کی بات سنی اور بتایا کہ آپ کا کام نہیں ہو سکتا اور نہ ہونے کی یہ وجہ ہے ۔ لیکن میں نے انہیں چائے اور کھانے کا پوچھا ۔ بعد میں میرے رفیق کار جو اس دوران وہیں بیٹھے تھے پوچھنے لگے ’’تمہارا الیکشن لڑنے کا ارادہ ہے ؟ ‘‘ میں نے حیران ہو کر پوچھا ‘ کیوں ؟ ’’یہ تم لوگوں کو ملتے ہو اور ان سے چائے اور کھانے کا پوچھتے ہو ‘‘ ۔۔۔میں ہنس پڑا ۔ اور ان سے کہا ’’تم شہر کے بابو ہو ‘ تم یہ مسئلہ سمجھ ہی نہیں سکتے کوئی اور بات کرو ‘‘ ۔
تو جناب ! اللہ کا شکر ہے کہ اکائی کو جوڑے رکھنے ہی کی کوشش کی اور دوئی سے ایک فاصلے ہی پر رہا ۔
مدیر : آپ سول سروس میں عرصہ گزار کر ریٹائر ہوئے ۔سوسائٹی کے عام آدمی سے کٹ جانے کا دکھ کیا آپ کے ساتھ ساتھ رہا ۔۔۔؟
اظہارالحق: جی نہیں ! اس میں ایک بڑا فیکٹر یہ رہا کہ میں ایک گاؤں سے تعلق رکھتا ہوں ۔ میں ہمیشہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے گاؤں میں پیدا کیا ۔ اور میں نے آدھا نہیں پورا پاکستان دیکھا ۔ شہر میں پیدا ہونے والا اور پلنے بڑھنے والا کبھی پورا ملک نہیں دیکھ سکتا نہ جان سکتا ہے ۔ گاؤں کا آدمی سول سروس میں جائے یافوج میں ‘ یا سیاست میں ‘ وہ عام آدمی سے نہیں کٹ سکتا وہ جو نظیر ی نیشا پوری نے کہا تھا ۔۔۔
نازاں مرو کہ بارِ علائق گذاشتی
ہستی تعلق است نظیری جریدہ تر
تو جناب جس طرح تا دم آخر علائق نہیں توڑے جا سکتے ‘ اسی طرح رورل ایریا کے لوگ عام آدمی سے نہیں کٹ سکتے ۔ پھر اہل ادب سے تعلق رہا ۔یہ بھی ایک Blessingتھی سول سروس کے کئی ایسے رفقاء کار بھی تھے اور ہیں جنہیں بازار سے گھر کا سودا سلف لائے زمانے ہو گئے ۔ میں نے شعوری طور پر ان کا طرز عمل سامنے رکھا اور اس سے احتراز کیا ۔ با رہا گاڑی گھر میں کھڑی رہی ‘ میں بچوں کو لے کر پیدل نکلا‘ انہیں ٹانگے اور سوزوکی وین میں بٹھایا ‘ راجہ بازار یا پرانے شہر کے دوسرے حصوں میں گئے ‘ا ور اسی طرح واپس آئے۔ بچے اسلام آباد میں پیدا ہوئے لیکن گھر میں زبان وہی بولتے ہیں جو میرے گاؤں میں بولی جاتی ہے ۔ اس کا کریڈٹ میری بیگم کو بھی جاتا ہے جو میرے علاقے سے نہیں ہیں لیکن انہوں نے فراخ دلی سے اجازت دی کہ بچے گھر میں وہی زبان بولیں جو میری مادری یا علاقائی زبان ہے ۔
مدیر : مذہب کو وجودی حقیقت کے طور پر لیا یا آباؤ اجداد کا ساختہ پرداختہ اثاثہ سمجھ کر ۔؟
اظہار الحق:کیا خوبصورت سوال پوچھا آپ نے ۔۔۔نہیں حضور! ساختہ پرداختہ کچھ بھی نہیں لیا ۔ یہی تو سارا جھگڑا ہے ۔۔۔
ازان کہ پیروئیِ خلق گمرہی آرد
نکی رویم براہی کہ کاروان رفتست
’’ہم اس راستے پر تو چلتے ہی نہیں جس پر قافلہ چلتا ہے ۔اس لئے کہ خلق کی پیروی سے راستہ ہی گم ہو جاتا ہے۔‘‘
انیس برس کا تھا جب شہر سبزہ وگل ڈھاکہ میں اترا ۔۔۔ڈھاکہ یونیورسٹی میں ایم اے کرنے کے لیے۔ یہ ایک اور ہی دنیا تھی ۔ بہت پڑھے لکھے لوگ تھے ۔ ہندو بھی ‘ مسلمان بھی ‘ طلبہ بھی ‘ پروفیسر بھی ‘ آج کے پاکستان میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ ڈھاکہ یونیورسٹی میں کیسا علمی اور دانشورانہ ماحول تھا ۔ بحث مباحثے ہوئے ‘مطالعہ میں وسعت پیدا ہوئی ‘ لکیروں ‘ زاویوں اور رقبوں نے ایک دوسرے کو قطع کیا۔ ایک عرصہ وہ بھی آیا کہ میں نے جو کچھ آباؤ اجداد ء اور گھر سے لیا تھا‘ بالائے طاق رکھ دیا ۔ عبدالماجد دریا آبادی اپنی سوانح میں لکھتے ہیں کہ دس سال تک وہ Non-believerرہے ۔ میں یہ تو نہیں کہتا ‘ لیکن پھر مذہب کی طرف پلٹا تو اپنی Convictionسے، سوچ سمجھ کر ‘ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ساری بداعمالیوں اور بے اعمالیوں کے باوجود الحمد للہ ‘ دوبارہ اٹھنے پر اسی طرح یقین ہے جیسے (بشر طِ زندگی ) رات کو سونے پر ۔۔۔جبھی تو کہا ہے ۔۔۔
ہمیں بنائیں گے مشت بھر خاک سے مکرر
یہ مشت بھر خاک جسم کے خاکداں سے لیں گے
اور اس حقیقت پر بھی کہ جس شخص (ﷺ) نے چالیس سال تک کوئی جھوٹ نہیں بولا وہ چالیس سال کے بعد کس طرح بول سکتا ہے ۔
مدیر : خدا پر وجودی یقین ہے یا اعتباری ۔۔۔یا ایک بے نتیجہ سر گردانی ہی لئے پھرتے ہیں
اظہار الحق: معاف کیجئے گا‘ یقین وجودی ہوتا ہے نہ اعتباری ‘ یقین صرف یقین ہوتا ہے ۔ اور مجھے اس خدا پر یقین ہے اور مکمل یقین جس کا پتہ اس کے رسول نے بتلایا ہے ! مومن ؔ یاد آگیا ۔۔۔۔
غضب سے تیرے ڈرتا ہوں رضا کی تیری خواہش ہے
نہ میں بیزار دوزخ سے نہ میں مشتاق جنت کا
مدیر : آپ ایک شاعر ‘ نقاد ‘دانشوار اور کالم نگار کے طور پر معروف ہوئے ‘ کیا یہ بھی اپنی افسری کو سوسائٹی میں معتبر کرنے کی ایک ’’سازش ‘‘ تھی ؟
اظہار الحق: ایک تو معروف ہونا کوئی فاعلاتی سرگرمی نہیں تھی ! دوسرے ‘ اس سے افسری کو معتبر کرنے والی بات بھی خوب رہی ! حضرت ! اس سوسائٹی میں شعر و ادب اور دانش و فکر سے افسری معتبر نہیں ہوتی غیر معتبر ہوتی ہے ! مصطفی زیدی یا شاید مرتضیٰ برلاس کا یہ مصرع یوں ہی تو نہیں مشہور ہوا ۔۔۔
افسروں میں شاعر ہیں شاعروں میں افسر ہیں
۔۔۔شاعر اور کالم نگار ہو کر احساس جرم تو ہو سکتا ہے ‘ سول سروس میں اس سے اعتبار بڑھنا بہت بڑا سوالیہ نشان ہے !
مدیر : اظہارالحق صاحب ! ہر بندے کے اندر ایک فقیر ‘ صوفی اور منش ضرور ہوتا ہے ۔ مگر لگتا ہے آپ صرف اپنے ہاتھ پر ہی بیعت ہونا پسند کرتے ہیں ۔۔۔(وجدانی سطح پر؟)
اظہار الحق: ایسا تو نہیں کہ اپنے ہاتھ پر ہی بیعت کی ‘ لیکن سچی بات یہ ہے کہ کوئی ایسا ملا نہیں جس کے ہاتھ پر بیعت کرتا ‘ اسی لیے تو کہا ۔۔۔
چار سمتوں میں سروں کی مشعلیں لے کر چلو
کیا خبر اک روز مل جائے کوئی کامل کہیں
ناصر کاظمی نے درست کہا تھا ؛
سادگی سے تم نہ سمجھے ترک دنیا کا سبب
ورنہ وہ درویش پردے میں تھے دنیا دار بھی
میرا نظریہ یہ بھی ہے کہ ہر شخص کو قدرت نے دو مرشد دیے ہیں ۔ جو اس کے ماں باپ ہیں ۔ جیسے بھی ہیں انسان کو چاہیے کہ انہی کے سامنے دست بستہ کھڑا رہے ‘ ان کی اطاعت کرے اور خدمت بھی ‘ فتویٰ نہ لگے تو یہ بھی کہوں گا کہ یہی تصوف ہے ۔ اللہ نے یوں ہی تو نہیں کہا ’’میرا شکر ادا کرو اور اپنے ماں باپ کا ‘‘ لیکن انسان اتناکم نظر ہے کہ گھر میں دو مرشدوں کو چھوڑ کر باہر بھٹکتا پھرتا ہے رومی نے اسی لیے تو کہا۔۔۔
ای قوم بحج رفتہ کجائید کجائید
معشوق ہمین جاست بیائید بیائید
معشوقِ تو ہمسایہ و دیوار بدیوار
در بادیہ سرگشتہ شما در چہ ہوائید
دہ بار ازان راہ بدان خانہ برفتید
یک بار ازین خانہ برین بام بر آئید
* اے حج پر سدھاری ہوئی قوم ! کہاں ہو ،معشوق تو یہیں ہے ،ادھر آؤ۔تمہا را معشوق تو ہمسائے میں ہے ،دیوار کے ساتھ دیوار ہے ، لیکن تم صحرا میں کس خیال کے ساتھ بھٹک رہے ہو ؟تم دس بار اُس راستے سے گئے اُس گھر میں گئے ۔چلو ایک بار اِس گھر کے راستے سے اِس بام پر تو آکر دیکھو ۔
مدیر : کیا تہذیب اور عملی اخلاق کو آپ الگ الگ حیثیت سے دیکھتے ہیں ۔۔۔؟ ہمارے ہاں دیکھنے میں آتا ہے کہ سول بیورو کریٹ جب تک کرسی پر براجمان رہتے ہیں کسی اسلامی ‘ اخلاقی ریاست سے ان کا کوئی لین دین نہیں ہوتا کرسی سے ہٹتے ہی ۔۔۔ان کے اندر کا مسلمان ۔۔۔پاکستانی ۔۔۔اور ’’تہذیب کار‘‘ وعظ شروع کر دیتا ہے ۔ آپ کے ہاں کیا صورت حال رہی ؟
اظہارالحق: وعظ تو کرسی سے ہٹ کر بھی نہیں کیا کہ ۔۔۔
واعظان کین جلوہ بر محراب و منبر می کنند
چون بخلوت می روند آن کارِ دیگر می کنند
لیکن مجھے ان بیوروکریٹ اور جرنیل حضرات سے وحشت ہی رہی جنہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد نصیحت کی پر فضا وادی میں قدم رکھا۔ میں نے 1992ء میں کالم نگاری شروع کی اس کے بعد سولہ سال سول سروس میں ملازمت بھی رہی اور کالم نگاری بھی ۔جو کچھ کہنا چاہتا تھا ‘ ملازمت کے دوران بھی کہا اور اب بعد میں بھی کہہ رہا ہوں ۔ اس حوالے سے ڈاکٹر صفدر محمود کا میں بہت احترام کرتا ہوں ۔ ہمارے سینیئرز میں وہ واحد شخصیت ہیں جنہوں نے سول سروس کے دوران کھل کر لکھا اور مسلسل لکھا ۔ یہ جو سول اور خاکی بیوروکریٹ اب ریٹائرمنٹ کے بعد خطبات نما کالم اور مضامین لکھ رہے ہیں ان سے کاش کوئی یہ پوچھتا کہ تمہارے اثاثے کتنے ہیں ؟ اور کہاں کہاں ہیں ‘ لیکن
افسوس! بے شمار سخن ہائے گفتنی
خوفِ فسادِ خلق سے ناگفتہ رہ گئے
مدیر : آپ نے ’’زرنگار‘‘ ۵ میں اپنے ایک تاریخ ساز خط میں کہا کہ ’’تبدیلی تب آئے گی جب اس ملک میں اردو زبان رائج ہو گی۔۔۔کیا محض تبدیلی زبان کی انقلاب ساز ہو سکتی ہے ؟ کیا یہ خطیبانہ نکتہ نہیں ۔۔۔جو مفروضاتی لذت ہے ؟
اظہار الحق: نہیں ‘ ضیا صاحب! یہ خطیبانہ نکتہ ہے نہ مفروضہ ہے ۔ سوال یہ ہے کہ میں جب اردو کے رائج ہونے کی بات کرتا ہوں تو اس سے کیا مراد ہے ؟ بازار اور کارخانے میں تو اردو اب بھی رائج ہے ! اردو رائج ہونے سے میرا مطلب یہ ہے کہ مرکزی حکومت صوبائی حکومتوں ‘ مقامی ،ضلعی حکومتوں ‘ کارپوریشینوں ‘ خود مختار اداروں اور افواج پاکستان میں سارا کاروبار اردو میں ہو ۔ اور اس کی کلید یہ ہے کہ مرکزی اور صوبائی سطحوں پر مقابلے کے امتحانات اردو میں ہوں اور افواج پاکستان کے تربیتی اداروں میں اردو ہی ذریعۂ ابلاغ ہو ۔ اس وقت لا تعداد ٹیلنٹ صرف اس لیے افواج اور سول سروس میں نہیں آ پا رہا کہ اس ٹیلنٹ نے انگریزی نہیں سیکھی یا اس کا اس طرف رجحان نہیں تھا ۔ اس وقت آپ ان قومی اداروں میں صرف اس اقلیت سے بھرتی کر رہے ہیں جو انگریزی سے وابستہ ہے ۔ جب اکثریت ان اداروں کی بنیاد بنے گی تو ہماری نفسیات ‘ اندازِ فکر ‘ طرزِ عمل ‘ عوام کے لیے رویہ، سب کچھ بدل جائے گا ۔
مدیر : آپ نے پاکستانی ذہنیت پر طنز کر تر ے ہوئے کہا کہ ’’ ہم تہذیبی مہاجر ‘‘ بنے اور اپنا ’’آگا پیچھا ‘‘ گم کر بیٹھے۔۔۔ گلوبل ویلج پر ہونے والی فزیکل تبدیلیوں کے باوجود آپ سمجھتے ہیں کہ ۔۔۔آپ کی تعبیر جینوئن ہے ۔۔۔اور قابل عمل بھی ۔۔
اظہارالحق: گلوبل سطح پر اشتراک ہو یا کمپیوٹر سے کنٹرول ہونے والا زمانہ ہو ‘ ملکوں اور قوموں کی تہذیبی میراث نہیں بدلی جا سکتی۔ جس طرح کسی شخص کی ولدیت خاندان اور جائے پیدائش نہیں تبدیل کی جا سکتی اسی طرح کسی قوم یا گروہ کی تاریخ، ماضی کی ادبی میراث اور ثقافتی حوالے نہیں تبدیل کیے جا سکتے ۔ انگریزی ‘ ہسپانوی ‘ عربی ‘ فرانسیسی ‘ جرمن ‘ روسی ‘ چینی اور جاپانی بولنے والے اپنے ادبی اور ثقافتی ماضی سے آج بھی اتنے ہی جڑے ہوئے ہیں جتنے گلوبل ولیج کے ظہور میں آنے سے پہلے تھے ۔ یہ صرف برصغیر کا مسلمان ہے جو اپنے ماضی سے کٹ چکا ہے اور مکمل طور پر نابلد ہے ۔ اور یہ ماضی تبدیل نہیں ہو سکتا ‘ بالکل اسی طرح جیسے ولدیت نہیں بدل سکتی ۔ آپ مجھے یہ بتائیے کہ بیدل ‘ طالب آملی ‘ ابو طالب کلیم ‘ فیضی اور خسرو ۔۔۔کس کا تہذیبی ورثہ ہیں ؟ کیا ہم انہیں جانتے ہیں ؟ میں نے پہلے بھی کہا ہے اور پھر کہہ رہا ہوں یعنی
بارہا گفتہ ام و بارِ دگر می گویم
کہ تر کی اور وسط ایشیا ‘ رسم الخط بدلنے کے باوجود ہم سے بہتر ہیں اس لیے کہ زبان تو وہی ہے ‘ ہمارے ساتھ المیہ یہ ہوا کہ پوری کی پوری زبان اٹھ گئی ‘ اس سے زیادہ آگا پیچھا کیا گم ہو گا ؟ آج تقریباً ایک ہزار سال کی ادبی اور ثقافتی میراث قدیم کتب خانوں میں مدفون ہے یا ہوا میں تحلیل ہو چکی ہے ۔ کیا ولی دکنی اور میرؔ سے پہلے یہاں انسان نہیں بستے تھے ؟ کیا شاعری موسیقی اور فنون لطیفہ موجود نہیں تھے ؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو سوال یہ ہے کہ ہم ان سے نابلد کیوں ہیں ؟ اور ان سے رشتہ دوبارہ استوار کرنے کے لیے کیا کر رہے ہیں ؟
مدیر : کیا تہذیب سے جڑ کر اور لسانی وادبی توطن سے مرکب ہو کر آپ کو’’ عصری راہداری‘‘ مل سکتی ہے ۔۔۔؟
اظہار الحق: مجھے نہیں معلوم عصری راہداری کے خوبصورت لفظ سے آپ کیا مراد لے رہے ہیں لیکن اس ضمن میں دو باتیں اہم ہیں پہلی یہ کہ اب جب ہم اپنی تہذیب سے کٹے ہوئے ہیں اور لسانی اور ادبی غریب الوطنی سے گذر رہے ہیں تو عصری سطح پر ہم نے کیا تیر مارا ہے ؟ دوسری یہ کہ آج کے ترقی یافتہ ممالک نے اپنی اپنی تہذیب اور زبان سے پیوست رہ کر ہی ترقی کی ہے ۔
مدیر : کیا ہماری اسلامی ‘ ماضی پرست تاریخ اس قابل ہے کہ ہم اس پر فخر کر سکیں ؟ کیا یہ بھی اپنی نا اہلی کا ایک نفسیاتی نعرہ نہیں ؟
اظہار الحق: ضیاء صاحب! معاف کیجئے گا تاریخ اسلامی یا کافر یا غیر اسلامی نہیں ہوتی ؟ صرف تاریخ ہوتی ہے ۔ فخر تو کسی صورت میں نہیں کرنا چاہیے ۔ اس سے ترقی کے راستے مسدود ہو جاتے ہیں اور تنگ نظری پیدا ہوتی ہے لیکن اپنی تاریخ سے اور اپنے ماضی سے آگاہ تو ہونا چائیے !
مدیر : آپ نے سیاسی مدبرین و اکابرین کو قریب سے دیکھا ہے ۔۔۔کیا سیاست کا اپنی جنس میں کوئی اصولی ‘اخلاقی نظریہ ہوتا ہے ؟
اظہار الحق: میں نے دیکھا ہے کہ آپ ہنساتے بہت ہیں ! آگے چلیے !!
مدیر : پاکستانی سیاست میں جوہری تبدیلی کن تین اقدامات سے ممکن ہے ؟
اظہار الحق: سبحان اللہ! کیا Relevantسوال ہے ،یہ تین اقدامات جو میں عرض کرنے لگا ہوں نہ صرف یہ کہ ان سے جوہری تبدیلی ممکن ہے ‘ بلکہ یہ تین اقدامات نا گزیر ہیں اور ان کے بغیر ہم دائرے ہی میں بھاگتے رہیں گے ۔
اول ۔۔۔سیاسی جماعتونں کے اندر انتخابات تاکہ یہ خاندانوں کے چنگل سے رہا ہو سکیں ‘ نئی قیادتیں سامنے آئیں اور برداشت اور ذہنی پختگی کا کلچر جڑ پکڑ سکے ۔
دوم ۔۔۔لینڈ ریفارمز(land reforms) اور بلوچستان میں سرداری نظام کا خاتمہ۔ آپ کو معلوم ہی ہو گا کہ ہمارے پڑوس میں بھارت نے آزادی کے تین سال بعد زرعی اصلاحات نافذ کر دی تھیں اورزمین کی ملکیت کی تحدید کر دی تھی یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج بھارتی پنجاب‘ جو پاکستانی پنجاب سے کئی گنا چھوٹا ہے ‘ پورے بھارت کے لیے غلہ اگا رہا ہے ۔ زرعی اصلاحات کی دو دھاری تلوار سے آپ کو دوسرا فائدہ یہ ہو گا کہ منتخب اداروں میں خاندانی نشستیں ختم ہو سکیں گی اور زمیندار اور جاگیردار جو اپنے اپنے علاقوں میں عملاً بادشاہ ہیں اور سرکاری اہلکار تک ان کے تابع فرمان ہیں ‘ عوام کی گردنوں سے اتر جائیں گے ۔ رہا بلوچستان کا سرداری نظام ۔ تو غالباً پوری مہذب دنیا میں اس کی نظیر نہیں ہے تفصیلات میں جانے کا وقت ہے نہ موقع ورنہ میں ایسے ایسے ہو شربا واقعات بتاتا کہ سننے والا کہہ اٹھتا مرا ای کاشکی مادر نہ زادی
سوم ۔۔۔ہر شخص جو پبلک Figure ہے ‘ اپنے اثاثے بتائے اور اگر رضا کارانہ طور پر نہیں بتاتا تو قانون اس سے پوچھے اور عوام کو بتائے ۔
مدیر : کیا آپ وجودی مسلمان ہیں ۔۔۔یا معنوی اور تعبیری جس کا نظریہ دین مائع شکل میں مختلف اطراف میں ڈھلتا رہتا ہے ؟
اظہار الحق: میری خواہش تھی کہ یہ سوال آپ ضرور پوچھیں ۔۔۔۔
اس سوال پر مجھے ایک لطیفہ یاد آر ہا ہے ایک عالم فاضل گاہک نے مالٹے بیچنے والے سے پوچھا ’’تم عدداً بیچ رہے ہو یا وزناً ؟ ‘‘ اس نے جواب دیا ’’حضرت ! میں عدداً بیچ رہا ہوں نہ وزناً ۔۔میں تو مالٹے بیج رہا ہوں ‘‘
ضیا صاحب! میں وجودی مسلمان ہوں نہ تعبیری اور نہ معنوی ! میں تو صرف مسلمان ہوں ۔ رہا میرا نظریۂ دین ۔۔۔تو آپ مجھے خطر ناک سمت میں لیے جا رہے ہیں ۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ملک میں جو شے اسلام کے نام سے رائج ہے ‘ اس کا اصل اسلام سے کوئی تعلق نہیں ۔ پاکستانی اسلام بالخصوص اور مسلمان ملکوں کا اسلام بالعموم ۔۔۔مسجدوں کے قید خانوں میں سسک سسک کر وقت گذار رہا ہے ۔ یہاں لوگ صبح کی نماز پڑھنے مسجدوں میں جاتے ہیں ۔ باہر نکلتے وقت اسلام کو مسجد میں مقفل کر جاتے ہیں اب ظہر کی نماز تک ان کی زندگی میں اسلام کا کوئی دخل نہیں ۔ تجارت ہے یا دفتری امور‘ معاملات ہیں یا مالیات ‘ حقوق ہیں یا فرائض ‘ سب کچھ اپنی خواہش کے مطابق یا مصلحتوں کی خاطر سرانجام دے رہے ہیں۔ ظہر پڑھنے مسجد جائیں گے تو پانچ دس منٹ کے لیے پھر اسلام کو گلے لگالیں گے ۔
اس ضمن میں کچھ سوالات ہیں ۔ مثلاً کیا اسلام صرف عبادات کا نام ہے ؟ یا صرف تغریرات اور حدود کا یعنی سزاؤں کا ؟ اور کیا مقامی ثقافت کو اسلام کا نام دیا جا سکتا ہے ؟ یہاں تو یہ ظلم بھی ہوا کہ طالبان نے اپنے مقامی کلچر کو اسلام کا لبادہ پہنا دیا اور تقریباً پاکستان بھر نے اسے قبول کر لیا ۔
اسلام تو فرائض کی ادائیگی اور کبائر سے اجتناب کا نام ہے ۔ اس کا کسی مقامی زبان اور ثقافت سے کوئی جھگڑا نہیں ۔ مصری مسلمان کا لباس خوراک ‘ طرزِ زندگی اندازِ رہائش اپنا ہے ‘ ترک کا اپنا ‘ برونائی کے مسلمان کا اپنا ۔۔۔ایک عالم گیر مذہب کو آپ ایک مخصوص لباس اور مخصوص وضع قطع میں کیسے بند کر سکتے ہیں ؟ آج مسلمانوں میں اخلاقِ زرذیلہ بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں صرف دروغ گوئی کو لیجیے ۔۔۔صبح سے شام تک ہر شخص جھوٹ بول رہا ہی ۔ بچے ماں باپ سے ‘ ماں باپ اولاد سے ‘ میاں بیوی سے ‘ بیوی میاں سے ‘ گاہک دکاندار سے ‘ دکاندار گاہک سے ‘ ملازم مالک سے ‘ سیاست دان ‘ بیوروکریٹ ‘ عالم دین ‘ وکیل تاجر۔۔۔آپ کسی پر ایک لمحہ کے لیے اعتبار نہیں کرسکتے ۔ عقیدے دیواروں پر اور گاڑیوں کے عقبی شیشوں پر لکھ دیے گئے ہیں ۔ شہد اسلامی ہے ‘ بیکری مدینہ بیکری ہے ‘ نہاری ہاؤس محمدی نہاری ہاؤس (نعوذ باللہ ) ہے ‘ مکانوں پر ماشاء اللہ اور دکانوں پر خیر الرازقین لکھ دیا گیا ہے ‘ اور اندر دجل و فریب اور کذب ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہر شخص مرنے مارنے پر تلا ہوا ہے ۔ برداشت اور رواداری عنقا ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کا اسلام سے تعلق محض نام کا ہے ! اللہ کے رسولؐ نے فرمایا تھا کہ منافق کی تین علامات ہیں ۔ بات کرے تو دروغ گوئی کا سہارا لے ۔ وعدہ کرے تو اسے خلاف ورزی کی بھینٹ چڑھادے اور امین بنایا جائے تو خائن ثابت ہو ‘ ایک جگہ یہ بھی آیا ہے کہ جھگڑا کرے تو دشنام طرازی پر اتر آئے ۔ اس کسوٹی پر پرکھ لیجئے ‘ کون منافق ہیں ‘ ہم مسلمان ‘ اہل پاکستان یا وہ جنہیں ہم تکبر اور تحقیر سے کافر کہتے ہیں ۔ میں اپنی بیٹیوں اور بیگم کے ساتھ برطانیہ کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک گھوما ‘ امریکہ اور کینڈا گیا ‘ ہسپانیہ کی آوارہ گردی کی ‘ کئی بار سنگاپور کا سفر کیا ۔ آسٹریلیا کے اطراف و اکناف میں مسافتیں طے کیں اور رہا ‘ ٹراموں ‘ ٹرینوں ‘ بسوں اور بحری جہازوں میں سفر کیا لیکن عورتوں کو گھورتے اور ٹکٹکی باندھ کر دیکھتے کسی کو نہیں پایا ۔ اس کے برعکس جو کچھ پاکستان میں ہوتا ہے ‘ محتاجِ بیان نہیں ‘ اور نظروں کو آوارہ رکھنے اور پیکان کے طور پر بد استعمالی (Mis use)میں اچھی خاصی تعداد ان کی ہے جو ریش ہائے دراز رکھتے ہیں ۔ آپ تاجروں اور ٹریڈرز کو دیکھ لیجیے ۔ ان کی اکثریت بظاہر متشرع ہے لیکن ٹیکس چوری ‘ ملاوٹ ‘ ناجائز منافع خوری ‘ ذخیرہ اندوزی ‘ وعدہ خلافی‘ بد زبانی اور گنوار پن اسی طبقے میں زیادہ ہے ‘ گویاکہ من غش فلیس منا (جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں )اور من احتکر فلیس منا (جس نے ذخیرہ اندوزی کی وہ ہم میں سے نہیں ) ہمارے لئے نہیں صرف اہل مغرب کیلئے فرمایا گیا تھا !!۔ آپ تیرہ بختی کی انتہا دیکھیے کہ جن مدارس میں رات دن قال اللہ اور قال الرسول کی صدائیں بلند ہوتی ہیں ‘ ان میں سے کتنے ہیں جن کے’’مالکان‘‘ کے گھروں کے مصارف اور مدرسہ کے مصارف الگ الگ ہیں ‘ آمدنی کا حساب کتاب ہوتا ہے اور آڈٹ کی اجازت ہے ؟ کیا اپ نے کبھی غور کیا ہے کہ ان مدارس میں پڑھانے والے پاکستان کے سب سے کم آمدنی والے طبقات میں ہیں اورمالکان کے ’’صاحبزادگان ‘‘ اور شہزادے ‘‘ کس نہج پر زندگیاں گزارتے ہیں ؟
اسلام کا اس خطہ زمین میں اتنا استحصال ہوا ہے کہ خدا کی پناہ ! اقتدار کی مسند پر متمکن ہونے کے لیے ‘ سیاست کا زینہ چڑھنے کے لیے ‘ اور عالم فاضل کہلانے کے لیے ‘ اسلامی ’’نظام ‘‘ کا ایسا شوشہ چھوڑا گیا کہ انفرادی اصلاح ۔۔۔ جو اسلام کا اصل مدعا ہے ۔۔۔خواب و خیال ہو گئی ‘ اسلامی نظام ’’قائم‘‘ کرنے والوں نے تعلیمی اداروں ‘ نیم خود مختار سرکاری اداروں اور مختلف شعبہ ہائے حکومت پر قبضہ کر لیا۔ فسطائیت ہر طرف چھا گئی ۔ اخبارات جلائے گئے ۔اساتذہ پر حملے کیے گئے اور اس ’’اسلام ‘‘ کی حقیقت دیکھئے کہ منتخب اداروں میں ان علم برداران اسلام نے اپنی بیویوں بیٹیوں بہنوں اور بہوؤں ہی کو بھیجا (یہی کام غیر مذہبی سیاسی جماعتیں کر رہی تھیں ) کچھ نے الیکڑانک میڈیا پر کمند یں پھینکیں اور اسے اپنی زنبیل میں ڈال لیا ۔ لیکن ’’بے غرضی‘‘ اور ’’اخلاق ‘‘ کا یہ عالم تھا کہ اپنی زندگی ہی میں اپنے بیٹوں کو اپنا جانشین بنوا دیا ۔ کچھ ریش ہائے دراز نے ٹیکس دہندگان کے خرچ پر میامی کے ساحلوں کے مزے لوٹے اور عینی شاہد بتاتے ہیں کہ اتنے ’’مسحور ‘‘ ہوئے کہ ریت پر مہکتے ان انسانی باغوں کو جنت قرار دیا !
الغرض اسلام کا اس ’’اسلام‘‘ سے کوئی تعلق نہیں جو یہاں رائج ہے ۔ ابلہان مسجد ہوں یا تہذیب کے فرزند سب حاطب اللیل ہیں !!
مدیر : آپ کے ہنسنے کے تو ہم گواہ ہیں ۔۔۔رونے کا کتنا ہنر جانتے ہیں ۔۔۔؟
اظہار الحق: رونے ہی کا ہنر تو جانتا ہوں ۔ ہنسنا تو بے ہنری کے حوالے سے ہے ۔ اپنے آپ کو ایک ہی نصیحت کی ۔۔۔
روئیے کھل کر نشیب شب غنیمت جانیے
دن نکل آیا تو یہ دریا بہائیں گے کہاں
مدیر : آئنے کے سامنے کھڑے ہو کر زندگی زوال آمادہ لگتی ہے ۔۔۔یا ابھی آپ کے لئے یہ غمزہ کارہی ہے ۔۔۔؟
اظہار الحق: حضرت ! زندگی اور زو ال آمادہ ؟ یہ تو Contradiction in Termsوالی بات ہو گئی ۔ ! زندگی تا دم آخر خوبصورت ‘ متناسب اور متبسم ہوتی ہے اور ہر مرحلے پر اور ہر موڑ پر نئے غمزے اور انوکھے عشوے دکھاتی ہے ۔ زندگی نے اس مرحلے پر مجھے زینب ‘ حمزہ ‘ ہاشم اور قاسم جیسے پوتے نواسے اور نواسی دی ہے ‘ میں اسے زوال سے کیسے تعبیر کروں ؟ ان نعمتوں نے زندگی میں اتنے رنگ بھر دیے ہیں ‘ اسے اتنی بو قلمونی عطا کی ہے اور ایسا دلربا حسن دیا ہے کہ ایک ایک لمحہ خط اٹھا رہا ہوں ۔ لاہور سے میری پانچ سالہ نواسی زینب اسلام آباد آتی ہے تو میری ساری مصروفیات ‘ ساری Appointmentsمنسوخ ہو جاتی ہیں ۔ میں اس کے ساتھ کھانا کھاتا ہوں ‘ کلب جاتا ہوں ‘ کھیلتا ہوں ‘ واک کرتا ہو ں ۔ہم آمنے سامنے بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں ‘ رات کو کہانیاں سنتے اور سناتے ہیں ۔ پوتا آسٹریلیا بلا رہا ہے ۔ ان نعمتوں اور خوش وقتیوں پر اپنے پرودگار کا شکر ادا کرنا ممکن ہی نہیں لیکن کوشش تو کرنی چاہیے ۔۔۔!
مدیر : نقد و شعر و ادب یا کالم نگاری میں سے زیادہ شعبہ کونسا پسند ہے اور کیوں ؟
اظہار الحق: تنقید سے کوئی لگاؤ نہیں ۔ادب میں فارسی اور اردو شاعری ۔ اور فکشن میں انگریزی اور روسی ناول بہت پسند ہیں اور یہ شاعری اور یہ فکشن مستقل زیر مطالعہ رہتے ہیں۔ رہی کالم نگاری اور کالم خوانی تو کئی ایسے عوامل ہیں جنہوں نے اسے میرے لیے شعر و ادب جتنا ہی اہم کیا ہوا ہے ۔ شعر و ادب تو گھٹی میں ہے ‘ خاندان کے حوالے سے ‘ خون کے حوالے سے اور ماحول اور تربیت کے حوالے سے لیکن کالم نگاری اس لحاظ سے عزیز ہے کہ جب دیکھتا ہوں کہ معاشرے میں اسلام کے نام پر جہالت حکمران ہے ‘ طبقاتی طور پر ہم ہندو سماج کا تسلسل ہیں ‘ زرعی اصلاحات نہ ہونے سے ہم Fiefdomمیں رہ رہے ہیں اور قزاقوں کے مختلف گروہ باری باری ہم پر حکمرانی کر رہے ہیں تو کالم جدو جہد کی علامت بن کر سامنے آتا ہے ۔ یہ الگ بات کہ پرنٹ میڈیا میںSurviveکرنا ۔ ایک اور امتحان ہے !
مدیر : عورت ‘ شاعری اورخدا۔۔ کس کے قریب رہنے میں عافیت محسوس کرتے ہیں ۔ ۔؟
اظہار الحق: تینوں کے ۔۔۔اور اس میں کوئی تصادم والی بات نہیں ! اور شاعری کے قریب رہنے والی بات بھی خوب کی آپ نے۔ شاعری کے تو اندر رہا جاتا ہے !
عورت ۔۔۔میرے نزدیک خدا کی قدرت اور طاقت کا مظہر ہے ۔ وہ مرد سے زیادہ ذہین ‘ زیادہ برداشت کی مالک اور زندگی کے معاملات کو زیادہ سمجھنے والی ہے ۔ یہ جو ہمارے ارد گرد عورت ہمیں اپاہج ‘ بے دست و پا ‘ خود اعتمادی سے محروم اور بظاہر کج فہم نظر آتی ہے تو اس میں ہمارے معاشرے ‘ ہماری روایات اور مقامی ثقافتوں کا عمل دخل ہے ۔ اسی طرح اگر بیٹیاں بیٹوں سے بر تر نہیں تو ان کے برابر ضرور ہیں ۔ عورت کی معیت کے بغیر مرد کی زندگی لا حاصل ہے اور اگر کوئی مرد عورت کے بغیر زندگی سے لطف اندوز ہو رہا ہے تو وہ ذہنی بیمار ہے ۔ ہر وقت ۔۔۔یا جس قدر زیادہ ممکن ہو ۔۔۔اپنی پسندیدہ عورت کے ساتھ رہنا مرد کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا زندہ رہنے کے لیے ہوا اور پانی ۔۔ حسن کی یہی معیت اسے ایک نارمل مرد بناتی ہے اور وہ اپنے فرائض کو درست طور پر سر انجام دے سکتا ہے !
پھر آپ دیکھیے ‘ کہ عورت کی عمر جوں جوں زیادہ ہوتی ہے وہ حسن کے کمال کی طرف ‘ زینہ زینہ ‘ بڑھتی ہے اور زیادہ باوقار ‘ زیادہ خوش ادا‘ زیادہ خوش اسلوب اور زیادہ خوش وضع ہوتی جاتی ہے لیکن اس کے لیے آنکھوں میں اندھے پن کے نہیں ‘ نظر کے تار درکار ہیں ۔ جس معاشرے میں عورت کو اسلام کے نام پر قبائلی وحشت کے غار میں بند رکھا جاتا ہے ‘ وہاں یہ سب کچھ ‘ جو میں کہہ رہا ہوں ‘ ایک و اماندہ صدا کے سوا کچھ نہیں ۔ ہم ایک دلیل بہت طمطراق سے اچھالتے ہیں کہ اہل مغرب نے عورت کو جو شمع خانہ تھی شمع محفل بنا دیا ‘ ٹھیک ہے مغرب نے افراط سے کام لیالیکن تفریط تو دیکھیے ‘ شمع خانہ بناتے بناتے اسے شٹل کاک برقع میں قید کر دیا گیا ۔
آہ ازین طالع کہ در دریاز آتش سو ختیم
*کیا قسمت ہے کہ دریا کے اندر ‘ آگ سے جل گئے !
مدیر : کیا آپ کا ’’زندہ خدا ‘‘ پر ایمان ہے یا اس خدا پر جس کو زندہ رکھنے کے لئے ’’ملا‘‘ کا زندہ رہنا ضروری ہے
اظہار الحق: خدا ہمیشہ سے زندہ ہے اور اس کا مُلّا سے کوئی تعلق نہیں ۔ اسی پر میرا ایمان ہے ! ملا پیر اور اس قبیل کی دیگر اصطلاحات اسلام کے لیے اجنبی ہیں ۔ اسلام طبقات کو نہیں پسند کرتا خواہ یہ طبقات دولت کی بنیاد پر وجود میں آئیں ‘ رنگ کی بنیاد پر یا کسی مخصوص وضع قطع اور لباس کی بنیاد پر ! ہمارے معاشرے کی صورت مسخ کرنے میں اور ہمارے معاشرے کا ذہن ماؤف کرنے میں ان پڑھ روائتی ملا کا بہت بڑا کردار ہے ۔ لیکن Paradoxدیکھیے کہ ملا کو خود معلوم ہی نہیں کہ وہ انتشار کی علامت ہے اور یہ جو معاشرہ مسلسل گل سڑ رہا ہے تو اس میں اس کا بھی ہاتھ ہے ۔ ملا کا ادارہ کیسے وجود میں آیا ؟ اور اس میں ایک عام مسلمان کا کیا کردار رہا ہے ؟ یہ ایک الگ بحث ہے اور طویل ہے ۔ اسے کسی اور وقت پر اٹھا رکھتے ہیں ۔
مدیر: اوائل عمری سے ہی آپ کا رجحان ’’ادب خالص ‘‘ کی طرف ہے یا ترقی پسند نظریات کی طرف ؟
اظہار الحق: خوب اصطلاح ہے ’’ادب خالص ‘‘ اور یہ زرنگار کی اپنی اصطلاح ہے ! میرے تعلیمی سفر کی ابتداء ہی فارسی شاعری سے ہوئی اس لیے اوائل میں خالص ادب ہی سے معاملہ رہا ۔ مجھے ’’ترقی پسند ‘‘ کی ٹرم منظور نہیں کیوں کہ ہماری ادبی تاریخ میں اس سے مراد ایک مخصوص گروہ ہے ۔ بہر طور ڈھاکہ یونیورسٹی میں اقتصادیات کی تعلیم حاصل کرنے سے ذہن کے دریچے وا ہوئے ۔ پھر سول سروس میں آکر دیکھا کہ یہ ملک کس طرح چند ہاتھوں میں یرغمال بنا ہوا ہے ۔ اس کے بعد ’’ادب خالص ‘‘ تک محدود رہنا صرف اس صورت میں ممکن تھا کہ یا تو کانوں میں روٹی ٹھونس لیتا اور آنکھوں پر کھوپے چڑھا لیتا یا خود بھی استحصالی طبقے میں شامل ہو جاتا ۔ نثری نظم اور کالم کی طرف آنے کا یہی پس منظر ہے ’’پری زاد‘‘ اور ’’پانی پہ بچھا تخت ‘‘ میں شامل نثری نظمیں ناانصافی کے خلاف رد عمل ہیں ۔ اور کالم نگاری ایک مسلسل ‘ پیہم جدوجہد ہے ۔
مدیر : آپ کے ہاں وحدت ادیان کے بارے میں وسیع المشربی پائی جاتی ہے یا فقہی حدود میں ’’مربع ‘‘ ہونا پسند کرتے ہیں ۔۔۔؟
اظہار الحق:فقہی حدود تو ایک مذہب کے اندر کا معاملہ ہے اور وحدت ادیان ‘ بہت سے مذاہب کے باہمی تعلق کی بات ہے ‘ میں سمجھتا ہوں کہ وسیع المشربی کا عقیدے سے نہیں ‘ برداشت سے تعلق ہے ۔ میں وحدت ادیان کا قائل نہیں ‘ میرا ایمان ہے کہ اسلام ہی سچا اور برحق دین ہے ۔ دوسرے مذاہب اور اسلام میں بنیادی اختلافات ہیں ۔ لیکن دوسرے مذاہب اور ان کے پیرو کاروں کو برداشت کرنا مہذب معاشرے کا بنیادی تقاضا ہے اور اس پر کوئی سمجھوتا نہیں ہو نا چاہیے ۔ مذہب اور عقیدے کی بنیاد پر شہری حقوق سلب کر لینا یا زندہ رہنے کا حق نہ دینا ایک ایسا فعل ہے جو کسی صورت قابل قبول نہیں ہو سکتا ۔
رہیں فقہی حدود ۔۔۔تو وہ ان لوگوں کے لیے ہیں جنہوں نے دین سے واقفیت کی ذمہ داری صرف محلے کے مولوی پر ڈال رکھی ہے۔ کوئی بھی شخص جو اس مذہبی اجارہ داری کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں ‘ خو د مطالعہ اور تحقیق کرے گا۔ ایسا کرنے سے کسی ایک فقہ پر انحصار کرنا ممکن ہی نہیں رہتا۔ میں جب 2004ء میں حج کے لیے گیا تو تمام مکاتب فکر کا اس ضمن میں مطالعہ کیا ۔سعودی حکومت کی طرف سے عربی زبان کے جو کتابچے ملتے ہیں وہ حنبلی مکتب فکر کے ہوتے ہیں ۔ میرے والد کی لحد پر نور کی بارش ہو ‘ میں نے یہ کتابچے پڑھے اور سمجھ لیے ‘ ایک یمنی نے جوش تبلیغ میں مجھے شوافع کے تحریر کردہ مسائل حج دے دیے ‘ مالکی ‘ جعفری اور حنفی فقہوں کا بھی مطالعہ کر کے گیا تھا ۔ دلچسپ بات یہ ہوئی کہ جو وقت میں نے جمرات کے لیے چنا میں نے سنا کہ ایک سال بعد اسی کے جواز کا فتویٰ دیا گیا ۔
افسوس! فقہی اختلافات کو ‘ جو دراصل دین کو آسان کرتے ہیں اور اہل ایمان کو آپشن اور Choiceعطاکرتے ہیں ۔بنیاد بنا کر ایک دوسرے کے خلاف صف آرائیاں ہوتی ہیں اور اس جنگ میں وہ گرد اڑتی ہے کہ سچ چھپ جاتا ہے ۔ نظامی گنجوی نے سکندر اعظم کی ایک لڑائی کا حال لکھتے ہوئے خوب کہا ہے ۔
ز سم ِ ستوران دران پہن دشت
زمین شش شد و آسمان گشت ہشت
یعنی گھوڑوں کے سم مارنے سے میدان میں اتنی گرد اڑی کہ ایک زمین ہی تحلیل ہو گئی ‘ اور وہ گرد آسمان سے جا لگی یوں زمینیں چھ رہ گئیں اور آسمان آ ٹھ ہو گئے !!
مدیر : خدا‘ کائنات اور انسان ۔ ایک فلسفیانہ تشریح ہے اس تثلیث کے کسی رکن کو بدل کر کوئی اور رکن اس کی جگہ رکھنے کی صلاحیت اور خواہش ہے ۔۔۔۔؟
اظہار الحق:میں تو ’’خدا معاشرہ اور انسان ‘‘ کی تثلیث کا قائل ہوں اور اگر ممکن ہو تو اس تکون میں چوتھا زاویہ ’’خاندان ‘‘ کے حوالے سے بناؤں ‘ رہا کائنات کا معاملہ تو میں سعدی کے اس شعر کا قائل ہوں کہ ۔۔۔
تو کارِ زمین را نکو ساختی ؟
کہ با آسمان نیز پرداختی
معاشرہ کائنات سے کم پیچیدہ نہیں اور علائق کی وسعتیں کائنات ہی کی طرح بے کنار ہیں
مدیر : کیا آپ ’’روایت ‘‘ سے روگردانی کے قائل ہیں ۔
اظہار الحق:جی ہاں !بالکل قائل ہوں بشر طیکہ روگردانی برائے روگردانی نہ ہو ۔ جو روگردانی فیشن اور سکہ رائج الوقت کے طور پر ہو ‘ میں اسے تقلید محض سمجھتا ہوں ۔
لیکن دوسری طرف معاملہ یہ ہے کہ کوئی بھی سوچنے سمجھنے والا شخص ’’روایت ‘‘ میں مقید ہو کر نہیں رہ سکتا پھر ‘ جو اصحاب اس حوالے سے ’’تبدیلی ‘‘ کے مخالف ہیں ‘ ان سے کے ساتھ بھی اتفاق نہیں کیا جا سکتا ۔ ’’روایت ‘‘ کے علم بردار اکبر الہ آبادی کا یہ شعر بہت پیش کرتے ہیں ۔
پانی پینا پڑا ہے پائپ کا
حرف پڑھنا پڑا ہے ٹائپ کا
تو یہ وقت کے آگے بند باندھے کے مترادف ہے ’’روایت ‘‘ بنیادی طور پر قبائلی معاشروں کا امتیاز ہے ۔ آج مسلمانوں کی جو حالت زار ہے اس میں ’’روایت ‘ کا بہت بڑا حصہ ہے اور مجموعی طور پر یہ تبدیلی کی ضد ہے ۔
مدیر: انسان کے اردگرد تین قسم کی روایات کاا ستمرار ملتا ہے معاشرتی روایت‘ ادبی روایت اور دینی روایت ۔۔۔کیا آپ اپنی نظریاتی اور تعبیری اقلیم میں ان کو یکجا کرنا پسند کریں گے ؟ یا ان سب کا مدار الگ الگ ہی رکھیں گے ۔
اظہار الحق:یہ یکجا نہیں ہو سکتیں ۔ یہ مہلک ہو گا ۔ ان میں اگر کچھ قبول ہو سکتا ہے تو وہ ادبی روایت ہے اور وہ بھی ایک حد تک ۔ رہیں معاشرتی روایت اور دینی روایت تو یہ تو زہرہلاہل ہے ۔ ہر وہ معاشرتی روایت جو ترقی کے آڑے آتی ہے ‘ راستے سے ہٹا دینی چاہیے ۔بہت کم لوگ غور کر رہے ہیں کہ آج افغانستان جس ابتلا سے گذر رہا ہے اس کی بڑی وجہ معاشرتی روایت سے گہری وابستگی ہے ۔ رہی دینی روایت ‘ تو اس کا دین سے کوئی تعلق نہیں ۔ دین اور دینی روایت دو الگ الگ چیزیں ہیں ۔ آپ اتفاق کریں یا نہ کریں لیکن معاشرتی اور دینی روایت کا آپس میں خلط ملط ہونا سارے معاملے کو اور بھی گمبھیر کرتا ہے ۔ اللہ اور اس کے رسول نے دین جس شکل میں دیا تھا ‘ آج وہ روایت کے پردے کے پیچھے روپوش ہو چکا ہے ۔ طالبان اس کی مناسب ترین مثال ہیں ۔ پگڑی ‘ پھر مخصوص رنگ اور انداز کی پگڑی ‘ ایک خاص سائز کی ریش ‘ اسے دینی روایت کا نام دیا جاتا ہے اور پھر اسے بزور دوسروں پر مسلط کیا جاتا ہے ۔ عورت کو انسان کے بجائی ’’شے ‘‘ سمجھنا معاشرتی روایت ہے۔ پہلے کہا جاتا تھا زمانہ خدا ہے۔ اب معاشرہ بھی خدا ہے ۔ بس کانوں کو ہاتھ لگا کر یہی کہا جا سکتا ہے کہ
کھنچیں میرؔ تجھ ہی سے یہ خواریاں
نہ بھائی ! ہماری تو قدرت نہیں
مدیر : مذاہب و ادیان سے بالا تر ہو کر ان روایات کی اکائی اور یکجائی میں انسانی وجدان خصوصاً ادبی وجدان کیا خدمات سر انجام دے سکتا ہے ؟
اظہار الحق:ادبی وجدان کو نہ صرف مذاہب و ادیان سے بالاتر ہونا چاہیے بلکہ معاشرتی روایت کو بھی خاطر میں نہیں لانا چاہیے ۔ ہاں لینڈ سکیپ کی بات دوسری ہے ۔ لکھنے کے لیے لینڈ سکیپ تو کسی مذہب یا معاشرے سے لینا پڑے گا لیکن اس سے زیادہ ان کا رول نہیں ہونا چاہیے ‘ جوش نے کہا تھا ۔۔۔
ادب ادب ہے ادب کا نہیں کوئی مذہب
خدا کے فضل سے یہ کفر ہے نہ یہ اسلام
جو حضرات ادب میں مذہب کے خلاف لکھتے ہیں ‘ دراصل وہ بھی مذہبی روایت ہی کے اسیر ہیں ۔ اور ان کا لا شعور مذہب سے پیچھا نہیں چھڑا سکتا ۔ اس احساسِ کمتری سے رہائی پانے کے عمل میں وہ مذہب کے خلاف محاذ کھڑا کرتے ہیں ۔ یہ جو آپ نے کہا ہے کہ مذاہب و ادیان سے بالاتر ہو کر ’’تو یہی کلید ہے اس معاملے میں ۔
مدیر : پچھلے پچاس سال میں ہر نقاد کے ہاں یہی عندیہ اور پیشگوئی ملتی ہے کہ یہ شعر و ادب کے ’’چل چلاؤ ‘‘ کا دور ہے ۔۔۔اور آج بھی یہی ادب کی زوال آمادگی کا مسئلہ انہیں درپیش ہے کیا آپ اس سے متفق ہیں ؟
اظہار الحق:نہیں ! بالکل نہیں۔ اس ضمن میں ان ماتم گذاروں کا سب سے بڑا آرگومنٹ یہ ہے کہ کمپیوٹر آگیا ‘ ٹیکنالوجی اور سائنس آگئے ‘ اب ادب کون پڑھتا پڑھاتا ہے ؟ لیکن معاملہ اتنا آسان نہیں ۔ یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر ادب کیا ہے ؟ ادب محبت اور غم کا آؤ ٹ لیٹ ہے ۔ ادب حسن کی تصویر کشی کرتا ہے ‘ خواہ یہ حسن انسانی ہو ‘ کائنات کا ہو ‘ مناظر کا ہو عناصر کا ہو یا تعلقات کا ہو ‘ پھر ادب نا انصافیوں اور ناہمواریوں کے خلاف احتجاج بھی کرتا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ انسانی رشتوں کے باہمی تعلقات کو بیان کرتا ہے ۔
جب تک محبت غم حُسن ،رشتے ‘ ناانصافیاں اور ناہمواریاں دنیا میں موجود ہیں شعر و ادب بھی رہیں گے۔ کیا بیٹے یا ماں یا باپ کے مرنے پر لوگ روئیں گے نہیں ؟ روئیں گے تو شاعری بھی ہو گی اور ادب بھی تخلیق ہو گا۔ کمپیوٹر سائنس اور ٹیکنالوجی جوں جوں انسانی رشتوں کو کمزور کریں گے ‘ ادب کو نئے میدان میسر آئیں گے ۔ آپ دیکھیے ‘ ڈی ایچ لارنس کا عظیم ناول Sons and Loversنوحہ ہے انگلستان کے صنعتی ہونے کا اور پرانے انگلینڈ کے کھو جانے کا ۔ تو تبدیلی خود بڑے ادب کا پیش خیمہ ہوتی ہے ‘ اسے ختم نہیں کر سکتی ۔
مدیر : اگر ایک شاعر اردو ‘ پنجابی اور انگریزی میں بیک وقت شاعری کرتا ہے تو کیا وہ اپنے وجدانی مضامین کو قائم رکھ پاتا ہے یا زبانوں کے تغیرات ان مضامین کو لسانی تعبیرات میں دھکیل دیتے ہیں جن کی جداگانہ تشریح لازم ہو جاتی ہے ۔
اظہار الحق: دیکھے زبان ایک اوزار ہے ۔ اور ہر زبان ایک الگ اوزار ہے اب ایک اوزار سے آپ جو کچھ بنائیں گے ‘ ضروری نہیں کہ کسی دوسرے اوزار سے بعینہ وہی شکل بنے ۔ ہر زبان کی اپنی سہولتیں ہیں اور اپنی قیود اور مشکلات ہیں۔ مقفیٰ شاعری جس سہولت سے اردو اور فارسی میں ہو سکتی ہے ‘ مغربی زبانوں میں نہیں ہو سکتی ۔ آپ کا یہ کہنا درست ہے کہ زبانوں کے تغیرات ان مضامین میں لسانی تبدیلیاں لائیں گے جن سے معانی اور تعبیریں بدل سکتی ہیں ‘ اور فٹ نوٹ کا سہارا لینا پڑے گا
مدیر : کیا اسلامی شاعری وجودِ خدا (مبداء اول ) کی اشارتوں کو سمجھنے میں مدد دے سکتی ہے ۔۔۔۔اور یہ کہ اشرافیۂ یونان کے ’’فکری نظریات ‘‘ سے موجودہ شاعری کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے ؟
اظہار الحق: ضیا صاحب ! معاف کیجئے گا میں اسلامی شاعری کی اصطلاح سے اتفاق نہیں کرتا۔ شاعری اسلامی ‘ نصرانی یہودی یا ہندو نہیں ہوتی بس شاعری ہوتی ہے ‘ اور شاعری جو بھی ہو وجود خدا کی اشارتوں کو سمجھنے میں ممد ہو سکتی ہے کیوں کہ شاعری کے مندرجات اس نوع کے ہو سکتے ہیں کہ وہ رشد و ہدایت کا سامان بنے ‘ ہو سکتا ہے یہاں ’’متصوفانہ ‘‘شاعری کی اصطلاح زیادہ کار آمد ہے !
اشرافیۂ یونان کے فکری نظریات سے موجودہ شاعری کو سمجھنے والی بات کی متعدد جہتیں ہیں ‘ موجودہ شاعری میں صرف اردو ہی نہیں ‘ دنیا کی دوسری زبانیں بھی شامل ہیں ۔ یونانیوں نے جو اصول شاعری کے مقرر کیے ‘ میں نہیں سمجھتا وہ اس زمانے میں کار آمد ہو سکتے ہیں ۔ ارسطو کی بوطیقا (Poetics)ہی کو لے لیجئے ۔ اس میں اگرچہ ڈراما ‘ طربیہ ‘ رجزیہ اور حمدیہ (Dithyramb)سب پر بحث کی گئی ہے لیکن اصل موضوع صرف المیہ ہے ۔بوطیقا مغربی ادب میں ان شرحوں اور تراجم کی وساطت سے گئی جو فارابی اور ابن رشد نے کیے ۔ آج شاعری کے مندرجات اور ہیئیت ۔ دونوں مختلف ہیں چند بنیادی اصولوں کو چھوڑ کر ۔۔۔باقی سارے اصول جو ارسطو ‘ ہورپس اور دوسرے مصنفین نے بیان کیے ‘ لطف تو دے سکتے ہیں‘ رہنمائی نہیں کر سکتے ۔
مدیر : کیا مغرب کا بلند سے بلند آہنگ نظریہ ہماری ’’مقامی شاعری ‘‘ کو سمجھنے میں کار آمد ہو سکتا ہے ؟
اظہار الحق:یوں تو اس سوال کا جواب کسی خاص نظریے اور خاص شاعری کے حوالے ہی سے دیا جا سکتا ہے پھر بھی عمومی نکتہ نظر سے اس کا جواب نفی ہی میں ہے ۔ شاعری کو سمجھنے کے لیے اس شاعری کا اپنا لینڈ سکیپ ‘ اور اس کے اپنے ریفرنسز ہی کام آئیں گے ۔عربی کی جاہلی دور کی شاعری کی مثال لے لیجئے ‘ صحرا اور اس کے تلازموں کو جانے بغیر سبع معلقات کو نہیں سمجھا جا سکتا ۔شاعری گملے میں منتقل ہونے والا پودا نہیں ‘ زمین سے اگنے والا درخت ہے ۔اس کی جڑیں اسی دھرتی میں ہیں ‘ اس کی شاخوں پر وہی پرندے بیٹھے ہیں جو اس علاقے میں پائے جاتے ہیں ۔ دساور سے آئے ہوئے اور لائے ہوئے نظریات مقامی شاعری تو کیا ‘ کسی بھی صنفِ ادب اور کسی بھی شعبۂ حیات کے لیے بے معنی ہیں ۔ یہ نظریات وہ جنگلی شہتوت ہیں جو پولن الرجی پھیلانے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے !
مدیر : کیا مندرجہ ذیل کی ترتیب بدل سکتے ہیں آپ ۔۔۔ترجیح کے اعتبار سے ۔۔۔زندگی کی خوبصورتی کی ترتیب کے تناسب میں ۔۔۔یا اس کے نفاذ کی زمانی تقدیم و تاخیر ہونی جاہیے ۔ انصاف ۔۔۔صداقت ۔۔۔حسن ۔۔۔
اظہار الحق: مجھے اجازت دیجئے کہ میں انصاف اور صداقت کو ایک اکائی سمجھوں ۔ انصاف ہی صداقت ہے اور صداقت ہی انصاف ہے ۔ آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں کہ ظلم کی تعریف یوں کی گئی ہے کہ وضع شی فی غیر محلہ اور یہی صداقت کا قتل ہے ۔ رہا حسن تو وہ معنوی ہو یا صوری ‘ انصاف اور صداقت کے بغیر اپنے آپ کو برقرار نہیں رکھ سکتا ۔ زندگی کا حسن ‘ تہذیب کا حسن ‘ یا انسانی حسن ‘ سب انصاف اور صداقت کے شکر گزار ہیں !
مدیر : اردو شاعری میں فراق صاحب کا لب و لہجہ ۔۔۔اردو شاعری میں اضافہ کی کون سے نوعیت سے تعلق رکھتا ہے ؟
اظہار الحق: فراق اردو شاعری میں عطر بیز ہوا کا جھونکا ہے۔ اس کا سب سے بڑا کنٹری بیوشن یہ ہے کہ اردو شاعری کو وہ پہلی بار آسمان سے زمین پر لایا اور اسے اپنی مٹی ‘ اپنے پانی اور اپنی جڑوں سے روشناس کیا ۔ اردو شاعری فارسی شاعری کے خمیر سے اٹھی اور اس پر مسلمانوں کی اجارہ داری رہی ۔ اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ لفظیات ‘ تلازمے تلمیحات ‘ استعارے ‘ حوالے سب مذہبی اصطلاحات کے گرد گھومتے رہے ۔فراق نے اردو شاعری بالخصوص اردو غزل کو معنوی لحاظ سے بالکل تبدیل کر دیا اور یہ تبدیلی خوبصورت بھی ہے اور شیریں بھی۔ چند اشعار جو مجھے فوراً یاد آرہے ہیں ‘ میرے پوائنٹ کی وضاحت کریں گے ۔
دلوں میں تیرے تبسم کی یاد یوں آئی
کہ جیسے شام کو جل اٹھیں مندروں میں چراغ
----------o----------
مژدۂ کوثر و تسنیم دیا اوروں کو
شکر صد شکر غم گنگ و جمن مجھ کو دیا
----------o----------
وحدت عاشق و معشوق کی تصویر ہوں میں
نل کا ایثار تو اخلاصِ دمن مجھ کو دیا
----------o----------
رات چلی ہے جوگن ہو کر بال سنورے لٹ چھٹکائے
چھپے فراق گگن پر تارے ‘ دیپ بجھے ‘ ہم بھی سو جائیں
فراق کا دوسرا احسان اردو شاعری پر اس کی زبان ہے ۔ یہ تیور اردو شاعری میں فراق سے پہلے نہ تھے۔ اس کے جواشعار اضافتوں کے مرہون منت نہیں ‘ ان میں ایسی سلاست ہے جو پہلی بار دیکھی گئی اور ایسا تخیل ہے جو سراسر نیا ہے۔ چند شعر یاد آرہے ہیں۔
یہ نکہتوں کی نرم روی یہ ہوا یہ رات
یاد آرہے ہیں عشق کو ٹوٹے تعلقات
----------o----------
شام بھی تھی دھواں دھواں حسن بھی تھا اداس اداس
یاد سی آکے رہ گئیں دل کو کئی کہانیاں
----------o----------
اے مری شامِ انتظار کون یہ آ گیا لیے
زلفوں میں اک شب دراز آنکھوں میں کچھ کہانیاں
----------o----------
عشق کی آزمائشیں اور فضاؤں میں ہوئیں
پاؤں تلے زمیں نہ تھی سر پہ یہ آسماں نہ تھا
فراق کا تیسرا وصف وہ اشعار ہیں جو معاملات پر مشتمل ہیں ۔ میری رائے یہ ہے کہ مومنؔ کے بعد صرف فراق ہے جو معاملات محبت طے کر سکتا ہے ۔ دیکھیے
تو پھر کیا عشق دنیا میں کہیں کا بھی نہ رہ جائے
زمانے سے لڑائی مول لے ‘ تجھ سے برا بھی ہو
----------o----------
وہ پھریں اپنے درو بام پہ اہلے گہلے
عشق آوارہ پھرے دشت میں تنہا تنہا
۔۔۔---o----------
پھر تری چشم سخن سنج نے چھیڑی کوئی بات
وہی جادو ہے وہی حسن بیاں ہے کہ جو تھا
----------o----------
کچھ ایسی بات نہ تھی تیرا دور ہو جانا
یہ اور بات کہ رہ رہ کے درد اٹھتا تھا
----------o----------
امید یاس بنی یاس پھر امید بنی
اس اک نظر میں فریب نگاہ کتنا تھا
----------o----------
نہ کوئی وعدہ نہ کوئی یقیں نہ کوئی امید
مگر ہمیں تو ترا انتظار کرنا تھا
----------o----------
ہے ابھی مہتاب باقی اور باقی ہے شراب
اور باقی تیرے میرے درمیاں صد ہا حساب
----------o----------
فراق کی وہ غزل جس کا مطلع ہے
یہ صباحت کی ضو مہ چکاں مہ چکاں
یہ پسینے کی رو کہکشاں کہکشاں
اردو شاعری کے ماتھے کا جھومر ہے ۔ اس غزل میں ایک مافوق الفطرت اثر انگیزی ہے جو زبان و بیان سے ماورا ہے ۔
سچ بتا مجھ کو کیا یوں ہی کٹ جائے گی
زندگی عشق کی رائیگاں رائیگاں
----------o----------
ڈھونڈ تے ڈھونڈتے ڈھونڈ لیں گے تجھے
گو نشاں ہے ترا بے نشاں بے نشاں
----------o----------
یوں گھلے گا گھلے گا تیرے عشق میں
رہ گیا عشق اب استخواں استخواں
----------o----------
ہم کو سننا بہر حال تیری خبر
ماجرا ماجرا داستاں داستاں
----------o----------
عشق کی زندگی بھی غرض کٹ گئی
غمزدہ غمزدہ شادماں شادماں
----------o----------
اب پڑے اب پڑے اس کے ماتھے پہ بل
الحذر الحذر الاماں الاماں
فراق نے جو غزلیں بطرزِ میر ؔ لکھی ہیں وہ بھی بہت بڑا کنٹری بیوشن ہے۔
اب اکثر بیمار رہے ہیں کبھو کبھو لب کھولیں ہیں
پہلے فراقؔ کو دیکھا ہوتا اب تو بہت کم بولیں ہیں
----------o----------
اتنی وحشت اتنی وحشت صدقے اچھی آنکھوں کے
تم نہ ہرن ہو‘ میں نہ شکاری‘ دور اتنا کیوں بھاگو ہو
فراق کا ذکر وقت چاہتا ہے ۔اور یہ فقیر اس پر پہروں بات کر سکتا ہے لیکن ۔۔۔
شب کوتاہ و قصہ طولانی
مدیر : فیض کی انقلابی اور نظریاتی شاعری جمالیاتی آوازوں کا اجتماع ہے ۔۔۔اسکے زیر نظر کوئی ایسی بات جو اپنے قارئیں سے شیئر کرنا چاہتے ہوں ؟
اظہار الحق:فیض بڑے شاعر ہیں انہوں نے غزل اور نظم دونوں کو نیا عہد دیا ہے ۔ کلاسیکی لفظیات کو انہوں نے نیا موڑ دیا اور انہی گھسی پٹی لفظیات کو اس کمال سے برتا کہ جدید شاعری ان کے قدموں میں بیٹھ گئی ۔
کوئی یار جاں سے گذرا کوئی ہوش سے نہ گذرا
یہ ندیم یک دو ساغر مرے حال تک نہ پہنچے
یا
صحن گلشن میں بہر مشتاقاں
ہر روش کھنچ گئی کماں کی طرح
ان کی شخصیت بھی روشن تھی ۔ زندگی بھر کسی مخالف کو کچھ نہ کہا ۔ لیکن گڑ بڑ ان کی وفات کے بعد ہوئی۔ ادب ہو یا سیاست ‘ یہ طے ہے کہ جب ایک گروہ کسی شخصیت کے ارد گرد حصار باندھ لے اور اس پر اجارہ داری کا دعوی کردے تو اس شخصیت کی ہمیہ گیری کو نقصان پہنچتا ہے ۔ فیض صاحب کے ساتھ یہ ہاتھ ہوا کہ ایک مخصوص گروہ نے ۔۔۔۔غالباً اپنی دکان چمکانے کے لیے انہیں اپنے ساتھ جوڑ لیا ۔
میں یہ تو نہیں کہتا کہ انہیں کیش کیا گیا ‘ لیکن آپ اس کا کیا کریں گے کہ ان پر ایک چھاپ لگادی گئی ۔اس کا آغاز الیکٹرانک میڈیا سے ہوا ۔ ایک گروہ ان کے حوالے سے پردۂ سیمیں سے چمٹ گیا اور چمٹا ہی رہا پھر انہیں شاعر کم اور انقلابی اور نظریاتی زیادہ قرار دیا گیا ‘ بات صرف قرار دینے تک ہوتی تو ٹھیک تھا لیکن ایک مہم چلائی گئی ‘ اس سارے جھنجٹ کا منفی اثر یہ ہوا کہ ان کی شاعری دب گئی اور شاعری سے جو انقلاب نچوڑ کر نکالا گیا اور جو نظریاتی پہلو خوب خوب چمکا یا گیا وہ پیش منظر پر ٹھہر گیا اور باقی جو کچھ تھا پس منظر میں چلا گیا ۔ جو کچھ حال ہی میں ( یعنی ۲۰۱۱ ء میں ) ہوا ‘ اسی پر غور کیجئے ‘ ان کے نام سے تقریبات کا جو سلسلہ بر پا ہوا ‘ الیکٹرانک میڈیا سے اقتدار کے بلند و بالا ایوانوں تک‘اور جو غلغلہ برپا کیا گیا ‘ ادب کا کوئی بھی متین طالب علم اس سے متاثر نہیں ہو سکتا ‘ ہاں پریشان ضرور ہو سکتا ہے اور ہؤا ہو گا ‘ یہ ایک منطقی سوال ہے کہ آخر یہ سب کچھ مجید امجد ‘ ناصر کاظمی ‘ ن م راشد اور احمد ندیم قاسمی کے لیے کیوں نہیں کیا جاتا اور آخر منیر نیازی بھی تو شاعر تھا ! یہ بھی سوچیئے کہ فیض صاحب سے منسوب ہاؤ ہو کے اس سلسلے سے کون سے لوگ وابستہ ہیں ؟ کس قماش کے ہیں ؟ ان کی شہرت کیا ہے ؟ اور عزت و احترام کی وادی میں وہ کس کس موڑ پر کھڑے ہیں ؟
مدیر : ن ۔م ۔ راشد کے ہاں پایہ جانے والی انفرادی پس شعوری کو اجتماعی معاشری میں ڈھالنے کی کوئی صورت ہے یا آج بھی وہ اپنے مضامین اور شاعرانہ تفکر میں اکیلا ہے ؟
اظہار الحق:میں یہ تو نہیں کہتا کہ ان کے نظریات کو معاشرے کی اجتماعیت میں ڈھالا جا سکتا ہے لیکن یہ آپ نے درست فرمایا کہ وہ اپنے مضامین اور شاعرانہ تفکر میں آج بھی تنہا ہیں۔ انہوں نے جو شاعری کی وہ عالی مقام بھی ہے اور مشکل بھی ‘ ہیئت اور معنی دونوں میں یکسر منفرد ہیں ۔ اخترحسین جعفری کچھ کچھ اس شاہراہ پر چلے لیکن بات نہ بنی۔۔۔ایک اور بات بھی اس ضمن میں کرتے جائیں ‘ وہ جو ظفر اقبال نے کہا ہے کہ
یہاں کسی کو بھی کچھ حسب آرزو نہ ملا
کسی کو ہم نہ ملے اور ہم کو تو نہ ملا
تو ن م راشد کی وفات کے بعد کوئی گروہ ان کے کوچے سے نالہ و شیون کرتا نہیں گذرا اور کسی لابی نے اپنے آپ کو ان سے وابستہ نہیں کیا ۔ اگر ان کے متعلقین میں بھی ایسے پس ماندگان ہوتے جو ’’کامیابی ‘‘ کا ’’ہنر ‘‘ جانتے تو آج ان کی یاد میں بھی تقریبات کا سلسلہ منعقد ہوتا اور جشن برپا ہوتے ۔۔۔
گھٹ گھٹ کے رہے میر سے جب مرتے جہاں میں
تب جا کے یہاں واقفِ اسرار ہوئے ہم
مدیر : تنقیدی مصارف کا بوجھ کون برداشت کرتا ہے ۔مصنف ‘ قاری یا خود متن (Subject)
اظہار الحق:سبحان اللہ ! ضیا صاحب ! کیا خوبصورت ترکیب نکالی ہے تنقیدی مصارف! آپ جانتے ہیں کہ شادی کے ہنگامے میں مظلوم ترین فرد دلہن یا دولہا کا باپ ہوتا ہے ‘ تو حضور ! تنقیدی مصارف سارے کے سارے قاری برداشت کرتا ہے مصنف مطمئن بیٹھا ہوتا ہے اگر بد بخت نقاد اندھیرے میں لکڑیاں چن رہا ہے تو مصنف پرُامید ہوتا ہے کہ گرد جلد بیٹھ جائے گی اور نقاد وقت کی نذر ہو جائے گا ۔ اور اگر نقد صداقت کی ترازو پر تل رہا ہے تو کیا ہی کہنا ۔ رہا متن تو وہ شروح و حواشی کے حشو و زوائد سے محفوظ ہوتا ہے ۔ تنقید کی اذیت سے سیہ بخت قاری ہی گذرتا ہے !
مدیر : کیا اقبال کی انقلابی شاعری کا نفاذ موجودہ سیاسی اور جعرافیائی معاصرات میں ممکن ہے ؟
اظہار الحق:نہیں ! اس لیے کہ وقت کی رفتار بہت تیز ہے اور کوئی بھی نظریہ اس کا ساتھ نہیں دے سکتا ۔ مثال کے طور پر اقبال نے وحدتِ امت پر زور دیا ۔ لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ امت کا وجود ہماری خوش گمانی میں تو ہے ‘ حقیقت میں کہیں نہیں ‘ عراق پر امریکہ حملہ کرتا ہے تو اردگر د کی مسلمان (عرب ) ریاستیں ہی امریکی افواج قاہرہ کا مستقر ٹھہرتی ہیں ۔ پورا عالم اسلام تو دور کی بات ہے ‘ ایک علاقے کی مسلمان حکومتیں بھی اتحاد سے کوسوں دور ہیں ۔مصر اور شام کا اتحاد تاریخ کے غلاف میں لپٹا پڑا ہے ۔ پاکستان دو لخت ہو گیا ۔ زمینی حقائق یکسر مختلف ہیں ‘ تاریخ نے عملاً امتِ مسلمہ کا اتحاد کبھی نہیں دیکھا !
ضرب کلیم کا باب ’’سیاسیاتِ مشرق و مغرب ‘‘ اقبال کا بہت بڑا کارنامہ ہے ۔ جنگ عظیم اول اور دوم کے درمیانی عرصہ کے تاریخی مدو جزر کو سمجھنے کیلیے یہ باب اتنا ہی ممد ہے جتنا کہ انٹرنیشنل افیسرز کے طلبہ کے لیے Carrکی تصنیف Between Two Warsلیکن اس کا ہم عصر بین الاقوامی امور سے کوئی تعلق نہیں ۔ رہا نظریۂ خودی ‘ تو اقبال نے خود ہی تو کہا تھا کہ
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
بد قسمتی سے خود ی ایک فلسفیانہ خیال تو ہے ‘ لیکن سیاسیاتِ حاضرہ میں یہ کسی زہر کا تریاق نہیں ۔ اقبال نے افغانوں کو اپنا آئیڈیل قرار دیا لیکن حقائق کی دنیا میں افغانوں نے انسانیت یا مسلمانوں کی فلاح کے لیے کچھ نہیں کیا ‘ ہاں غارت گری اور بات ہے ‘ سچ یہ ہے کہ شاعری کوئی بھی ہو ‘ اس سے سیاست یا جغرافیائی نزاکتوں کو قابل عمل فائدہ نہیں پہنچ سکتا ۔ شعر کی دنیا کا حال تو یہ ہے کہ ۔۔۔
گہی بر طارمِ اعلیٰ نشینیم
گہی بر پشتِ پائی خود نبینیم
اس کی مثال یوں دیکھیے کہ ایک جگہ اقبال کہتے ہیں ۔
دین ملا فی سبیل اللہ فساد
اور دوسری جگہ کہتے ہیں
افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج
ملا کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو
شاعری سے فائدہ اور حظ دونوں اس صورت میں برآمد ہو سکتے ہیں کہ اسے شاعری ہی رہنے دیا جائے ۔ بد قسمتی سے ہمارے مذہبی طبقات نے نکاح طلاق اور ِ وضو کے مسائل کے لیے بھی کلامِ اقبال کو استعمال کرنا شروع کر دیا اور جو دوسرے حضرات تھے انہوں نے حقائق کی دنیا سے مکمل چشم پوشی کرکے کلامِ اقبال سے تاریخ اور جغرافیے کی شکل تبدیل کرنا چاہی۔ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ بد قسمتی سے جس ریاست کا خواب انہوں نے دیکھا تھا وہ اپنے قیام کے چوبیس سال بعد ہی دو ٹکڑے ہو گئی ‘ اور جو باقی ہے ‘ اس کا حال سب کے سامنے ہے اور استقبال دھند میں لپٹا ہے ۔
شاعری سے آپ انسپائر تو ہو سکتے ہیں ‘ جذبات کو گرم کر سکتے ہیں ‘ ہنس سکتے ہیں ‘ گریہ وزاری کر سکتے ہیں لیکن شاعری کی بنیاد پر کوئی مربوط اور منضبط نظام نہیں وضع کر سکتے ۔
اقبال نے جس چیز کا صرف سرسری ذکر کیا اگر وہ اسے اپنا مرکزی نکتہ (Main Thesis)بناتے تو شاید مسلمانان عالم کا بالعموم اور مسلمانانِ پاکستان کا بالخصوص زیادہ بھلا ہوتا ۔ مسلمانوں کا زوال اس وقت شروع ہوا جب وہ علم سے دور ہوئے اور سائنس اور ٹیکنالوجی سے ہاتھ کھینچ لیا۔ پھر ان کا جغرافیے سے تعلق رہا نہ طب سے اور نہ ایجادات اور دریافتوں سے۔ حالانکہ ان فنون و علوم میں انہوں نے دنیا کی رہنمائی کی تھی اور نئے راستے نکالے تھے ۔ پھر اس راستے پر مغرب چلا اور کامیاب ہوا ۔ اس حقیقت کو اقبال نے جاوید نامہ میں ابدالی کی زبان سے یوں بیان کیا ۔
قوتِ مغرب نہ از چنگ و رباب
نی ز رقص ِ دخترانِ بی حجاب
نی ز عریاں ساق و نی از قطعِ موست
نی ز سحرِ ساحرانِ لالہ رُوست
محکمی او را نہ از لا دینی است
نی فروغش از خطِ لا طینی است
قوّتِ افرنگ از علم و فن است
از ہمیں آتش چراغش روشن است
حکمت از قطع و بریدِ جامہ نیست
مانعِ علم و ہنر عمامہ نیست
علم و فن را ای جوانِ شوخ و شنگ
مغز می باید ، نہ ملبوسِ فرنگ
اندریں رہ جُز نگہ مطلوب نیست
این کلہ یا آن کلہ مطلوب نیست
فکر چالاکی اگر داری بس است
طبعِ درّاکی اگر داری بس است
*مغرب کی طاقت چنگ و رباب سے ہے نہ بے پردہ لڑکیوں کے رقص سے ۔ نہ برہنہ پنڈلیوں سے ‘ نہ تراشیدہ بالوں سے ‘ اور نہ لالہ رو حسیناؤں کے سحر سے ‘ اس کا استحکام لا دینی سے ہے نہ ہی اس کی ترقی لاطینی رسم الخط سے ہے ۔ فرنگی کی قوت تو علم و فن سے ہے ۔ اسی آگ سے اس کا چراغ روشن ہے ۔ حکمت لباس کی تراش خراش کا نام نہیں ۔ عمامہ علم و ہنر سے منع نہیں کرتا ۔ سوال اس ٹوپی یا اس ٹوپی کا نہیں ہے اس راستے میں تو نگاہ کے سوا کچھ بھی نہیں چاہیے ۔ پختہ سوچ اور عالمانہ طبع اگر رکھتے ہو تو بس یہی کافی ہے ۔‘‘
یہ جو اقبال نے کہا ہے کہ قوتِ افرنگ از علم و فن است ۔ تو یہ ہے وہ نکتہ جو آج کا مسلمان اور آج کا پاکستانی سمجھ نہیں پا رہا۔کاش اس نکتے پر اقبالؔ زیادہ کام کرتے۔ آج اگر امریکہ کراۂ ارض کا طاقت و ر ترین ملک ہے تو اسے یہ اعزاز کسی نے خیرات میں نہیں دیا ۔ یہ قرن ہاقرن کی محنت شاقہ کا ثمر ہے ۔ آپ دیکھیے کہ جہاز سے لے کر ریل تک ‘ موٹر کار سے لے کر ٹیلی ویژن تک ‘ بم سے لے کر ایٹم بم تک سب کچھ اہل مغرب نے ‘ بالخصوص امریکیوں نے بنایا ‘ آپ ان کی West ward Expansionکو دیکھ لیجئے لکڑی کے کیبنوں میں موسموں اور عناصر کی سختیاں سہیں ‘ ریڈ انڈین سے لڑے ‘ گھوڑوں پر ہزاروں میل کے سفر کیے لیکن کوئی تھک ہار کر واپس گھر کے گوشۂ عافیت کو نہ پلٹا ۔ برطانیہ کو دیکھیے ‘ انگریز ڈپٹی کمشنر کو معلوم ہوتا تھا کہ وہ نینی تال سے یا ٹانک سے یا وانہ سے یا درۂ بولان سے زندہ واپس نہیں جائے گا ۔ لیکن وہ وہیں رہا ‘ زبانیں سیکھیں ‘ مقامی ثقافت اپنائی ‘ ایک ایک ضلع کی تاریخ لکھی اور یوں زندگی تج دی ۔ انہی لوگوں نے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ ‘ الاسکا ، قطب شمالی اور قطب جنوبی ‘ سب کچھ دریافت کیا ۔ اب اگر کوئی اس خوش فہمی میں ہے کہ وہ بم بلاسٹ سے ‘ یا نائن الیون سے ‘ یا ہڑتالوں اور جلوسوں سے یا شعلہ بار تقریروں سے یا اور اد و و ظائف سے ‘ یا پیشگوئیوں اور زائچوں سے یا نام نہاد کشف و کرامات سے مغرب کی توپوں میں کیڑے ڈال دے گا اور یوں مسلمان کرۂ ارض کے پھر حکمران ہو جائیں گے تو اس پر ہنسا جا سکتا ہے یا اظہار ہمدردی ہی کیا جا سکتا ہے۔ اسی نکتے کو اقبال نے بیان کیا ہے کہ
’’قوت افرنگ از علم و فن است‘‘
پھر جب اقبال کہتے ہیں کہ لباس کی تراش خراش سے حکمت آتی ہے نہ عمامہ علم و ہنر سے روکتا ہے تو اس کا آج کے حوالے سے یہ مطلب بھی ہے کہ عمامہ علم و ہنر کی گارنٹی بھی نہیں ہے۔ اور ایک خاص و ضع قطع کی پوشاک کا علم و فن سے کوئی تعلق نہیں ۔
این کلہ یا آن کلہ مطلوب نیست
یعنی ٹوپی یا پگڑی کیسی ہونی چاہیے ‘ یہ ایک بیکار اور لا حاصل بحث ہے ۔
مدیر : انگریزی ادب کے حوالے سے بتائیں کہ اردو شعر و ادب اور فکشن پر اس کے اثرات مثبت پڑے ہیں یا منفی ؟ یا سرے سے موجود ہی نہیں ہیں؟
اظہارالحق:چبھتا ہوا سوال ہے اور اس کا جواب آسان نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ تقسیم سے پہلے انگریزی ادب کے اثرات ہمارے شعر وادب پر زیادہ پڑے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت معیار تعلیم بلند تھا ۔ اس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ اس دور میں ہمارے ادیب اقبال ‘ محمد علی جوہر ‘ ظفر علی خان ‘ عبدالماجد دریا آبادی ‘ حسرت موہانی اوراور کئی دوسرے بلند مرتبہ ادیب اور دانشمند ،اُس زمانے کے تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل تھے۔ تقسیم کے بعد ہمارے لکھنے والوں کی اکثریت انگریزی ادب تو دور کی بات ہے ‘ انگریزی زبان ہی سے نابلد ہے ۔ فیض ‘ ن م راشد ‘ مجید امجد ‘ اور چند دوسرے ادیبوں شاعروں کو چھوڑکراکثر و بیشتر نے انگریزی ادب کا کوئی مطالعہ نہیں کیا اس لیے کہ وہ اس کے اہل تھے نہ ہیں ۔ یہاں میں نام کسی کا نہیں لیتا ‘ لیکن افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ انگریزی فکشن اور انگریزی شاعری اور تنقید تک ہمارے اکثر ’’مشہور ‘‘ ادیبوں کی رسائی ہی نہیں ہے ۔ تقسیم سے پہلے انگریزی شاعری سے سانیٹ اور بلینک ورس اردو شاعری میں داخل ہوئے لیکن تقسیم کے بعد کے منظر نامے پر ایسا کوئی نشان نہیں ۔ مطالعہ اور تحصیل علم دو ایسے مشاغل ہیں جو ہمارے شاعروں اور ادیبوں کو کبھی مرغوب نہیں رہے ۔ یہاں شہرت اور قبولیت عام کے لیے جو عوامل کار گر ہیں ان میں علم یا کمال فن ہرگز لازم نہیں ۔ الیکٹرانک میڈیا۔ پی آر ‘ (جسے کچھ لوگوں نے باقاعدہ ایک سائنس بنا لیا ہے ) ‘ وابستگان کا کوئی موثر گروہ ‘ کچھ بھی آپ کو شہرت کے زینے پر چڑھا سکتا ہے ۔ کچھ عرصہ ہوا ٹیلی ویژن کے ایک مشاعرے میں ایک عبرت ناک واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔ سعود عثمانی نظامت کر رہے تھے ۔ جہاں تک مجھے یاد ہے خورشید رضوی اور شہزاد احمد بھی تھے ۔ ایک مشہور شاعر نے جو ماشاء اللہ پوری دنیا میں پاکستان کی نمائیندگی کرتے ہیں اور اکثر و بیشتر کرتے ہیں ۔ آ کر نعت پڑھنا شروع کی تو تمام شاعر فرط حیرت سے ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے ۔ مطلع کے دونوں مصرعے الگ الگ بحر میں تھے اور یہ دونوں بحر پوری نعت میں ’’الگ الگ ‘‘چلتے رہے ‘ یعنی ہر شعر کا پہلا مصرع وزن میں ‘ دوسرے مصرع سے مختلف تھا ۔ جب اس کا تذکرہ کسی نے ایک سینیئر شاعر سے کیا تو ان کا فوری ردِ عمل بہت دلچسپ تھا ۔ ’’یہ نعت انہوں نے مجھے دکھائے بغیر پڑھ دی !‘‘
مقصد کسی کی تحقیر نہیں ہے ۔ عرض مدعا صرف یہ ہے کہ آپ انگریزی شعرو ادب کی بات کر رہے ہیں ۔ یہاں تو لوگ مبادیاتِ فن سے ناواقف ہیں ۔ حافظ شیرازی نے یوں ہی تو نہیں کہا تھا ۔۔۔۔
ابلہان را ہمہ شربت بہ گلاب و قند است
قوتِ دانا ہمہ از خونِ جگرمی بینم
اسپ تازی شدہ مجروح بزیر پالان
طوق زرین ہمہ در گردنِ خرمی بینم
*احمقوں کو گلاب و قند کے مشروبات دیے جا رہے لیکن داناؤں کو خونِ جگر پلایا جا رہا ہے ۔اسپ تازی پالان کے بوجھ سے زخمی ہو گیا ۔ دوسری طرف گردنِ خر میں سنہری پٹہ ڈال دیا گیا ۔
اردو شعر و ادب سے وابستہ افراد کی اکثریت انگریزی زبان و ادب سے بے بہرہ ہے۔ اس کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ کبھی جب کوئی ’’دیانت دار‘‘ ادیب انگریزی سے سرقہ کرتا ہے تو اکثر قارئین کو ہاتھ کی اس صفائی کا پتہ ہی نہیں چلتا ۔ اسے آپ اردو شعر و ادب پر انگریزی ادب کا منفی اثر بھی قرار دے سکتے ہیں ۔ اس کی ایک مشہور مثال گوپی چند نارنگ ہیں ۔ انہیں ان کی تصنیف ’’ساختیات ‘‘ پسِ ساختیات اور مشرقی شعریات‘‘ پر 1995ء میں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ دیا گیا۔ 1997ء میں مشہور ادیب فضیل جعفری نے انکشاف کیا کہ یہ گوپی چند نارنگ کی تصنیف نہیں بلکہ تالیف ہے اور اس میں دوسروں کی لکھی ہوئی چیزوں کو جمع کر دیا گیا ہے ۔2006ء اور 2008ء میں برمنگھم یونیورسٹی کے شعبۂ انگلش کے پی ایچ ڈی کے ایک طالب علم عمران شاہد بھنڈر نے تفصیل سے لکھا کہ کس طرح گوپی چند نارنگ کے ’’تصنیف کردہ ‘‘ صفحوں کے صفحے دراصل ’’ترجمہ ‘‘ پر مشتمل ہیں ۔ان تراجم کو نارنگ صاحب نے واوین کے ساتھ واضح کیا نہ ہی اصل مصنفین کے نام بتائے ۔ شکا گو یونیورسٹی کے پروفیسر سی ایم نعیم نے مشہور بھارتی اخبار ’’آؤٹ لک ‘‘ (مطبوعہ 24جولائی 2009ء ) میں اس موضوع پر تفصیلی مضمون لکھا جس کا عنوان تھا ۔ Plagiarize and Prosperیعنی ’’سرقہ کرو اور پھلو پھولو ‘‘
یہ مضمون بعد میں پاکستان کے انگریزی روزنامہ ’’دی نیوز ‘‘ میں بھی شائع ہوا (مجھے اس دلچسپ تنازعہ کا علم دی نیوز کے اس مضمون ہی سے ہوا ) ۔ غالبؔ یاد آرہا ہے ۔۔۔
بھرم کھل جائے ظالم ! تیرے قامت کی درازی کا
اگر اس طرۂ پر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے
حقیقت یہ ہے کہ اردو ادب برصغیر کی دوسری زبانوں (بنگالی ‘ مراٹھی ‘ تامل وغیرہ) کے ادب سے کئی فرسنگ پیچھے ہے اس کی ایک وجہ اردو کے ادیبوں اور شاعروں کی اکثریت کا مطالعہ اور تحصیل علم سے گریز ہے ‘ بالخصوص انگریزی ادب سے جب کہ بنگالی مراٹھی تامل وغیرہ کے ادیب انگریزی اور مغربی زبانوں کے ادب کے شناور ہیں اور ہم جب انگریزی ادب کا ذکر کرتے ہیں تو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ انگریزی میں روسی ‘ فرانسیسی ‘ جرمن ‘ ہسپانوی اور عربی زبانوں کے تراجم بھی آسانی اور افراط کے ساتھ میسر ہیں !
مدیر : کلاسیکل شاعری میں آپ کے پسندیدہ شاعر کون سے ہیں ۔۔۔۔؟
اظہارالحق:مجھے میر ؔ اور مومن پسند ہیں ‘ لیکن میں فارسی کی کلاسیکل شاعری کا بھی دلدادہ اور مستقل طالب علم ہوں ۔ نظامی گنجوی ‘ فیضی ‘ قآنی اور ‘ نظیری نیشاپوری اور رومی کے دیوانِ شمس تبریز کا اسیر ہوں ۔ شبلی کی شعر العجم اور براؤن کی لڑیری ہسٹری آف پرشیا اکثر و بیشتر زیر مطالعہ رہتی ہیں ۔
مدیر : آپ کا پسندیدہ ناول نگار ‘ انگریزی ادب میں اور اردو ادب میں ۔۔۔اور کیوں ؟ وجہِ انتخاب ؟
اظہارالحق:کسی ایک ناول نگار کو الگ کرنا مشکل ہے ۔ میں برونٹی سسٹرز کا شیدائی ہوں ڈی ایچ لارنس کا ناول Sons and Loversبہت پسند ہے ۔ لارنس اس میں بتاتا ہے کہ صنعتی اور معدنی انقلاب کس طرح پرانے انگلستان کو تبدیل کر رہا ہے ۔ شہرہ آفاق روسی شہکار ڈاکٹر ژواگو میرا سب سے زیادہ پسندیدہ ناول ہے ۔ میرے دوسرے مجموعۂ کلام ’’عذر‘‘ میں ڈاکٹر ژواگو اور پاسترناک کے حوالے سے نظمیں بھی شامل ہیں ۔ محبت کی کہانی لکھتے ہوئے بورس پاسترناک نے قلم توڑ کے رکھ دیا ہے ۔ 1917ء کے اشتراکی انقلاب اور خانہ جنگی نے جو خاندانی انتشار پھیلایا ۔ وہ اس ناول کا خاص موضوع ہے ۔ بورس پا سترناک کی نظمیں بھی مجھے محبوب ہیں ۔ میرے چاروں شعری مجموعے یکجا کرکے ’’کئی موسم گذر گئے مجھ پر ‘‘ کے عنوان سے شائع کیے جا رہے ہیں ‘ اس کتاب کو میں نے اپنے بچوں کے نام معنون کیا ہے اور صفحۂ انتساب پر بورس پاسترناک کی یہ سطریں لکھی ہیں۔۔
I Feel for all of them as though I'M in their skin and share their fortune
یہ سطریں پاسترناک کی نظم ’’ڈے بریک ‘‘ کی ہیں ۔
اردو میں قرۃ العین حیدر ! ایسی اردو شاید ہی پھر کوئی لکھ پائے گا ۔ میں نے ساڑھے تین دہائیاں سول سروس میں گذاری ہیں ‘ اس حوالے سے قرۃ العین حیدر ‘ جن کے والد سول سروس میں تھے ‘ جب ایک خاص قسم کے اسلوب زندگی کو ڈسکرائب کرتی ہیں تو لطف دو چند ہو جاتا ہے ۔
عبداللہ حسین کے ناول ’’ اداس نسلیں‘‘ اور مستنصر حسین تارڑ کے ناول’’ قلعہ جنگی‘‘ نے بھی متاثر کیا ہے ۔ ۔۔
انتظار حسین کی زبان دل کو لبھاتی ہے۔
مدیر : پسندیدہ شاعر انگریزی اور اردو شاعری میں ۔۔۔اور وجہ پسندیدگی ؟
اظہارالحق:رابرٹ فراسٹ پسندیدہ شاعر ہے اس نے سادگی اور سلاست کے ساتھ فطرت ‘ ابلاغ کی مشکلات ‘ روزہ مرہ زندگی کے عام واقعات اور سب سے بڑھ کر یہ کہ شہری اور دیہاتی زندگی کو جس طرح موضوع بنایا ہے وہ متاثر کن ہے ۔ اس کی نظمیں
Acquainted with the night
Birches
The road not taken
بہت خوبصورت شاعری ہے ۔
اردو کے پسندیدہ شاعروں کی فہرست مختصر ہو سکتی ہے نہ آسان ‘ اقبال کا اردو (اور فارسی) کلام شوق سے پڑھتا ہوں ۔ مسدس حالی۔ کے منتخب حصے میں نے اپنے بچوں کو (فارسی شاعری کے علاوہ ) سبقاً سبقاً پڑھائے ۔ ن م راشد ‘ شکیب جلالی ‘ ظفر اقبال ‘ ناصر کاظمی ‘ مجید امجد ‘ جان ایلیا‘ شبیر شاہد اور ثروت حسین کا کلام اکثر و بیشتر زیر مطالعہ رہتا ہے میراجیؔ کی دو نظموں ’’دور کنارا‘‘ اور ’’تنہائی ‘‘ نے ایک عرصہ سے اپنے سحر میں جکڑ رکھا ہے ۔ ظہور نظر کے شعری مجموعہ ’’ریزہ ریزہ ‘‘ کی نظمیں دل کو بھاتی ہیں ۔ افتخار عارف کے نعت کے کچھ اشعار کمال کے ہیں ۔
طالب علمی کے زمانے میں ناصر کاظمی کی برگِ نے ‘ مجید امجد کی شبِ رفتہ ‘ احمد فراز کی درد آشوب ‘ احمد ندیم قاسمی کی دشتِ وفا اور ظفر اقبال کی گلافتاب تقریباً پوری کی پوری حفظ تھیں ۔ اپنے استادِ گرامی پروفیسر ڈاکٹر ظہیر فتحپوری کا کلام بھی یاد تھا ۔ وہ ہندی بحور میں مسحور کن شاعری کرتے تھے ۔
چند اشعار آپ کو سناتا ہوں ۔۔۔
مرے من موہن ترے مکھڑے پر کھلے بیلے کا سجیلاپن ہے
نصیبہ اب کے بہت اترایا ‘ تبسم ہے یا کنول روشن ہے
----------o----------
بڑی شوخی ہے کھلے جاتے ہو ظہیرؔ اتنا تو بتاتے جاؤ
جہاں ہمجولی سے ہولی کھیلی کہاں وہ کافر کا بندرا بن ہے
----------o----------
فصیل ہجراں نہ قید دوراں وہ آئے مجھ میں سماتا جائے
نہ مل پاؤں میں جہاں جاؤں میں نئی اک دنیا رچاتا جائے
----------o----------
ہری ٹہنی سے تپاں صحرا تک کلی پہ غربت کٹھن گزری ہے
ہواؤ گاؤ کہ بنجارے نے بڑے دکھ سہہ کر وطن دیکھا ہے
----------o----------
حسن کہ تھا سیماب صفت ‘ ٹھہرا نہ چمن میں
آن بسا کچھ تیرے تن کچھ میرے من میں
----------o----------
رخ پر شوخی جھمکے ہے شرمیلے پن میں
جیسے سنہری دھوپ کھلی ہو صندل بن میں
غم کی ندی وادی میں اتر کر کھل کھیلے ہے
درد ہواہے اور قیامت دھیمے پن میں
----------o----------
لمحے کشکول لیے گذرے جاتے ہیں
اک سکۂ غم اے زیست کہ دل ہلکا ہو
----------o----------
جگ میلہ ‘ جیون نوٹنکی ‘ سکھ جھولا
سب دھوکا ہے لیکن جو ہمیں جانا ہو
مدیر : پسندیدہ نظم نگار اورغزل گو نئی نسل سے ۔۔۔۔؟
اظہارالحق:نظم نگاروں میں معین نظامی ‘ وحید احمد اور فرخ یار پسند ہیں ۔ غزل گوؤں میں سعود عثمانی اور عباس تابش اچھے لگتے ہیں ۔ امداد آکاش نے غزل میں بہت اچھے اچھے شعر کہے ہیں۔
مدیر : نسائی ادب ‘ شاعری ‘ افسانہ ‘ ناول نگاری ‘ کالم نگار‘ آپ کی پسند کی ترجیحات کیا ہیں ۔ کن خواتین نے متاثر کیا ۔۔۔۔؟
اظہارالحق:آپ کو معلوم ہے ہمارے منتخب اداروں میں خواتین دوراستوں سے داخل ہوتی ہیں ۔ اکثر خواتین مخصوص نشستوں پر نامزد ہوتی ہیں لیکن کچھ خواتین باقاعدہ الیکشن جیت کر اپنے حلقے کی نمائیندگی کرتی ہیں ۔ میں ادب کو مردانہ اور زنانہ ڈبوں میں بانٹنے کا قائل نہیں ۔ میرے نزدیک نسائی ادب ‘ ایک ایسی اصطلاح ہے جو ضعف‘ رعایت اور احساسِ کمتری کی علامت ہے ۔ آپ دیکھیئے پنجابی میں امرتا پرتیم اور پربھ جوت کور جیسی شاعری کون مرد کر سکا ؟ پروین شاکر کمال کا کالم لکھتی تھیں ۔ عطاء الحق قاسمی کے بعد ‘ ادبی قدروقیمت کے لحاظ سے مجھے پروین ہی کے کالم اچھے لگے ۔ نثار عزیز بٹ کی خود نوشت ’’گئے دنوں کا سراغ‘‘ بہت پسندآئی ۔ شفیق فاطمہ طغریٰ کی نظمیں ہمیشہ شوق سے پڑھیں ۔ طاہرہ اقبال کا افسانہ لکھنے کا منفرد اسلوب توجہ کھینچتا ہے ۔ ان خواتین کی تحریروں کو’’ نسائی ادب ‘‘کے چھوٹے سے خانے میں بند کر دینا بد ذوقی ہے !
مدیر : ہمارے شعراء کو مغربی ادب سے واقف ہونا چاہے یا نہیں ۔ یہ ایک نزاعی مسئلہ ہے۔۔۔ آپ کا تجربہ اور وجدان کیا کہتا ہے ۔۔۔؟
اظہارالحق:میں نہیں سمجھتا کہ یہ کوئی نزاعی مسئلہ ہے ہم تھوڑی دیر پہلے بھی اس موضوع پر گفتگو کر چکے ہیں ہمارے شعرا کو (اور نثر نگاروں کو بھی ) مغربی ادب سے ضرور واقف ہونا چاہیے ۔ ہمارے ادیبوں کی اکثریت پہلے ہی ایک حصار میں مقید ہے ۔ اور انگریزی زبان و ادب سے
نابلد ہونے کی وجہ سے شدید احساسِ کمتری میں مبتلا ہے ۔
مدیر : کوئی پسندیدہ شعر قارئین سے شیئر کرنا چائیں تو ۔۔۔؟
اظہارالحق:عالم تاب تشنہ مرحوم کا ایک شعر اس وقت یاد آرہا ہے ۔۔۔
گنتی میں بے شمار تھے ‘ کم کر دیے گئے
ہم ساتھ کے قبیلوں میں ضم کر دیے گئے
مدیر : ’’زرنگار‘‘ کا تازہ شمارہ ادبی افق پر جا رہا ہے ۔۔۔ اس جریدے کے بارے میں آپ کے تاثرات ۔۔۔؟
اظہارالحق:’’زرنگار ‘‘ کا ذکر جب بھی ہوتا ہے یا جب بھی مجھے اس کا تازہ پرچہ ملتا ہے یہ مجھے اپنے گھر کی طرح لگتا ہے ۔اپنے میلبورن والے گھر کے خوبصورت لان کی طرح ۔ جس مکتوب کا ذکر آپ نے اس انٹرویو کے آغاز میں فرمایا‘ وہ میں نے اسی لان میں بیٹھ کر آپ کے نام لکھا تھا ۔ میرے ایک طرف پھولوں سے لدے پودے تھے ‘ دوسری طرف دامنِ دل کھینچتے دیدہ زیب درخت اور درمیان میں لش گرین مخملیں سبزہ ۔ بس یہی ’’زرنگار ‘‘ ہے ۔ ادب عالیہ کے اس چمنستان میں پھول ‘ پیڑ ‘ سبزہ زار ‘ آسمانی پرندے ‘ نرم ہوا کے جھنکورے چھتریوں کی طرح جھکے ہوئے ابر پارے ‘ سب کچھ ہے ‘ اتبذال اور سطحیت کے اس دور میں یہ ایک متین اور سنجیدہ جریدہ ہے ۔ یہ جو میں تھوڑی دیر پہلے ماتم کناں تھا کہ ہمارے اہل ادب تحصیل علم اور مطالعہ سے پرہیز کرتے ہیں ‘ تو ’’زرنگار ‘‘ کا اس حوالے سے کنٹری بیوشن بہت وقیع ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ زرنگار ‘ ادب عالیہ کا نقیب ہے ۔
جلال الدین خوارزم شاہ کی آٹھ سوویں برسی پر ازبکستان کی حکومت نے ایک بین الاقوامی ادبی سیمینار منعقد کیا تھا ۔ میں بھی اس میں مدعو تھا ۔ ایک شام ہم سب خیوا(خوارزم ) کی بغل میں ‘ نئے شہر ارگنچ کے ایک سبزہ زار میں بزم آرا تھے ۔ ازبکستان کے صدر نے خطاب کرنے کے لیے آنا تھا اور ہم سب مندوبین انتظار کر رہے تھے ۔ میرے ساتھ ایرانی مندوب بیٹھے تھے ۔ خوارزم کا ذکر چھڑا تو انہوں نے سلطان محمود غزنوی کے ہم عصر مشہور شاعر منو چہر دامغانی کا شعر سنایا ۔
خیزید و خز آرید کہ ہنگامِ خزان است
بادِ خنک از جانبِ خوارزم وزان است
میں تو کہوں گا کہ زرنگار بادِ خنک ہے جو خوارزم کی طرف سے چلی ہے ۔ اپنا شعر یاد آرہا ہے ۔۔۔
اس خاک کی دنیا سے جدا اس کی ہوا تھی
کیا حسن تھا خوارزم میں ‘ کیا اس کی ہوا تھی
تو جناب زرنگار کا کیاحسن ہے اور کیا اس کی ہوا ہے ! بس یہ ہے کہ یہ حسن قائم رہے ‘ اور اس کی ہوا چلتی رہے ۔ اتنا ضرور عرض کروں گا کہ زرنگار میں کچھ صفحات عالمی ادب سے تراجم کے لیے وقف ہونے چاہیں خاص کر انگریزی ادب سے ۔ میں نے سرگزشت حاجی بابا اصفہانی کا ترجمہ کرنا شروع کیا ہے (انگریزی اور فارسی دونوں متون پیش نظر ہیں) ذرا سلسلہ آگے بڑھے تو میری خواہش ہے کہ اس کے کچھ حصے ’’زرنگار ‘‘ میں ضرور شائع ہوں ۔
(مدیر:) سر! آپ کا بے حد شکریہ اپ نے ہمارے سوالات کے وقیع جوابات عنایت فرمائے ۔ )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
3 comments:
یہ انٹرویو سہ ماہی زرنگار کے کون سے شمارے میں چھپا ہے ؟
Tahir Abbas Simon
یہ پرچہ آپ کو نہیں ملے گا۔ زرنگار بند ہو گیا۔ اس کے مدیر انتقال کر گئے
Thanks for a great read
Post a Comment